قارئین کرام! واضح رہے پاکستان دفاع و سلامتی کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں گہری اور نتیجہ خیز وابستگی(بطور اتحادی) کی طویل تاریخ کا حامل ملک ہے۔ امریکی حکومتوں اور عالمی سیاست کے امریکی سکالرز اور تھینک ٹینکس کی نظر میں اب یہ پاک، امریکہ تعلقات کی تاریخ کا ایک بوسیدہ اور غیر اہم باب ہے۔ لیکن اب پھر واشنگٹن کے اسلام آباد کی طرف مائل ہونے پر پاکستان کیلئے اب بھی بہت غور طلب، بڑے سوال اٹھاتا اور ان ہی کے حتمی جوابوں کی روشنی میں آئندہ کے ناگزیر پاک امریکہ تعلقات کی حدود و نوعیت طے کرنے کا متقاضی ہے۔ اب تو پاکستانی امور کے امریکی واچ ڈاگ اپنی حکومت کو قومی مفاد میں NO EXIT FROMکی تھیوری سمجھا رہے ہیں۔ اس لئے سائوتھ چائنہ سی ایشو کے اٹھنے اور دبنے، ’’ٹریڈ وار‘‘ میں بظاہر چین سے امریکہ کی شکست اور افغانستان سے تین ٹریلین ڈالر خرچ کرکے امریکہ اور نیٹو اتحادیوںکے حصول مقاصد کے بغیر انخلا پر پاکستان کے خسارے سے پُر بھاری جانی و مالی ،جبری و مسلط قربانی کے حامل تعاون کے باوجود اسلام آباد کو مسلسل مطعون کیا گیا، اسی کے بہانے افغانستان میں بھارت کی غیر معمولی پاکستان مخالف کی موجودگی کا جواز بنایا گیا۔ناکامی کا جو ملبہ پاکستان پر ڈالنے کا رویہ اختیار کیاگیا اس سب کے باوجود آج پھر امریکہ کو پاکستان کو ہی ہر حال میں ساتھ ملا کر اپنی ڈھب کا ہی پیراڈائم تشکیل دینا ناگزیر محسوس ہو رہا ہے۔ اس میں وہ کابل سے انخلا کےبعد پالیسی کی حد تک واشنگٹن جو اسلام آباد کو کم ترین اہمیت دینے کا تاثر دے رہا تھا، اس میں یوٹرن آنے کی عملی شکل امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو کی امریکی کانگریس میں وہ طلبی ہے، جو ان پر پاکستان میں رجیم چینج کی دھمکی اور اس کے فالو اپ میں عمران حکومت کے خاتمے کے آپریشن کو مینج کرنے کے الزام پر پی ٹی آئی اور امریکہ میں پاکستانی ڈائس پورہ کے مسلسل احتجاج اور منتخب نمائندوں سے رابطے کے بعد ہوئی۔ قطع نظر اس کے کہ سائفر کے مندر جات کیا تھے اور ڈونلڈ لو کا کردار، پاکستان کی موجودہ سخت متنازع و نحیف حکومت سے کہیں زیادہ مستحکم و کامیاب ساڑھے تین سالہ عمران حکومت ختم کرانے کے الزامات سے کتنی مطابقت رکھتا ہے، یہ شواہد تو واضح ہیں کہ رجیم چینج کے بعد واشنگٹن افغانستان سے انخلا کے بعد اسلام آباد سے اختیار کی گئی بے رخی و سرد مہری کو ختم کرکے دوبارہ سے پاکستان سے اپنے تعلقات بڑھانے اور پیراڈائم شفٹ کی گریٹ گیم میں پاکستانی کردار اور اہمیت کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کے لئے مکمل سفارتی دلجمعی پر مائل ہے، جبکہ یہ بھی اتنا ہی واضح ہے کہ پاکستان کی موجود گھمبیر صورتحال میں خود نہ ہماری متنازع و نحیف حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ جچے تلے پاکستانی مفادات کے مطابق عالمی و علاقائی سیاست میں کردار ادا کرے، خود پاکستان سے باہمی مفادات کے حامل علاقے کے دوست اور دور ممالک کو بھی اسلام آباد سے اپنی ضرورت اور مفادات کی بنیاد اور مطلوب درجے پر تعلقات قائم رکھنے اور بڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ تو دو ڈھائی سال سے شدت سے منتظر ہیں کہ پاکستان کی صورتحال میں کوئی ٹھہرائو آئے، سیاسی استحکام ہو تو وہ ادھورے جاری و مجوزہ مشترکہ مفادات کی حامل سفارتی اور ترقیاتی سرگرمیوں کی طرف دوبارہ آئیں۔جیسے ہم اور علاقے کے ممالک دو عشروں تک اپنے مفادات کے حوالے سے افغانستان میں امن کے منتظر رہے۔ اب تو اسلام آباد پر امریکہ کے پھر بڑھتے اثر میں یہ پھر اور زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں خود امریکہ کیلئے بھی کیونکہ پہلی مرتبہ ملکی تاریخ میں پاکستان کے خارجہ امور درست اور ملکی مفاد کے رخ پر کرنے میں عوام کا کردار لازم ہوگیا ہے، اس کو جھٹکنے اور اس سےبےپروائی برتنے کا دوسرا مطلب خود اپنے سفارتی اہداف کے حصول میں مشکلات پیدا کرنا ہوگا۔ شاید امریکہ نے تو اس کھلے راز کو سمجھ لیا ہے، تبھی تو کانگریس میں ڈونلڈ لو کی طلبی ہوئی۔ ہمارا موجود سخت متنازع و نااہل حکومتی سیٹ اپ اور اس کی گورننس کا معیار، اتنا کچھ ہونے کے باوجود اتنی اہلیت اور سکت بڑھانے میں مکمل ناکام معلوم دے رہا ہے کہ پاکستان کی شدید بیمار قومی معیشت کو پاکستان کی پیرا ڈائم شفٹ میں واضح اہمیت کو سمجھ کر بمطابق سفارتی اقدامات اٹھانے، نااہلی اور بیڈ گورننس کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ ہے، دوسرے اس کی ’’مینڈیٹڈ‘‘ حیثیت اب پوری دنیا اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام پر اتنی بے نقاب ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو منوانے، عوام کی ناراضی و احتجاج کو قابو رکھنے، انتظامیہ کو اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطابق مینج کرنے کے چھوٹے چھوٹے دائروں اور کارروائیوں میں ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے، جس میں 8فروری کے تباہ کن ڈیزاسٹر کے مداوے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
ہمارے امریکی دوست یہ نہ بھولیں کہ 1979ء میں ان کے جنوب مغربی ایشیا (پاکستان و افغانستان اور ایران و ترکی) کے خطے سے اثر ونفوذ کم تر ہوتے ہوتے افغانستان سے انخلا پر تقریباً ختم ہونے کا آغاز ایرانی اسلامی انقلاب کے بھرپور عوامی تائید سے برپا ہونے سے ہی ہوا تھا، جس (امریکی اثر) کی انتہائی شکل سوویت یونین کی افغانستان پر کھلی جارحیت کی دیدہ دلیری سے بنی، اس وقت پاک امریکہ تعلقات بھی روایتی سفارتی تعلقات محدود ہوگئے تھے۔ لیکن اس کی بلند درجے پر بحالی پاک امریکہ تعلقات کی شکل میں افغانستان سے سوویت انخلا کے مشترکہ مفاد پر ہوئی۔ جون 1979ء میں اسلام آباد نے اپنی سیٹو کی رکنیت (1973) میں ختم کرنے کے بعد سینٹو کو بھی خیر باد ہی نہیں کہہ دیا تھا، ناوابستہ ممالک کی تحریک (NAM)کے ہوانا اجلاس میں اس کی رکنیت بھی اختیار کرلی تھی۔ سو خطے میں دوبارہ امریکی اثر کا دروازہ، افغانستان پر سوویت جارحیت سے کھلا تھا نہ کہ کسی امریکی سفارتی کامیابی سے۔(جاری ہے)