• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے کچھ دیر قبل ہی ٹوکیو سے تھائی لینڈ کے بینکاک أیرپورٹ پر لینڈ کیا تھا اور اب مجھےکراچی کی فلائیٹ لینا تھی ، وقت کم تھا لہٰذا تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا ،روزہ بھی تھا مغرب کا وقت بھی ہونے کو تھا ،سوچا تھا کہ جہاز کے اندر جاکر ہی افطارکر لوں گا لیکن میری خوش قسمتی کہ جہاز میں داخل ہونے سے چند قد دور ہی پچیس سے تیس پاکستانی بھائی ایک جانب بیٹھ کر روز ہ کھولنے کا انتظار کررہے تھے ، میں دیکھ رہا تھا کہ فلائیٹ بالکل تیار تھی لیکن مجھ سمیت جو پچیس سے تیس افرادافطاری میں مصروف تھے جس کے سبب أیر لائن انتظامیہ بھی کافی پریشان تھی ، بار بار جہاز سے مسافروں کو فوری طو رپر جہاز کی طرف چلنے کی درخواست کی جارہی تھی ،میں نے پانی سے روزہ کھولا اورفوری طور پر جہاز میں داخل ہوگیا ،ہمارے ساتھ بیٹھے ایک خان صاحب کو جہاز کی انتظامیہ کی جانب سے بار بار بلاناناگوار گزررہا تھا لیکن کچھ ہی دیر بعد تمام مسافر جہاز میں داخل ہوگئے ،حسن اتفاق کہ افطار میں أئر لائن انتظامیہ کو برا بھلا کہنے والے خان صاحب بالکل میرے برابر والی نشست پر براجمان ہو گئے ،اگلے چند منٹوں میں جہاز فضا میں بلند ہوچکا تومیں نے کچھ دیر آرام کرنے کے لیے آنکھیں بند کیں برابر میں بیٹھے خان صاحب حکومت پاکستان کی جانب سے افغان ٹریڈ بند کرنے پر سخت نالاں تھے اور اپنےدوست سے حکومت پر اپنا غصہ نکال رہے تھے ، ان کا خیال تھا کہ حکومت نے افغانستان جانے والے ہزاروں ٹرکوں کو صرف اس لیے روک دیا ہے کہ ان سے کچھ لین دین کی بات کی جاسکے ، وہ اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو انتہائی غلط حقائق بتا کر پاکستان کو برا بھلا کہنے میں مصروف تھے جومجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا لہٰذا میں نے خان صاحب کی گفتگو میں مخل ہونے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ اس حوالے سے میرے پاس کافی حقائق تھے لہٰذا میں نے خان صاحب سے کہا کہ خان صاحب مجھے اس معاملے کے حقائق معلوم ہیں لہٰذا میں آپ کی کچھ تصحیح کرنا چاہتا ہوں ، خان صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے اجازت دے دی ، میں نے کہا دیکھیں خان صاحب پاکستان کی معاشی حالت اس اسمگلنگ کی وجہ سے بہت زیادہ نازک ہوچکی ہے جبکہ افغانستان تباہ حال معیشت ہونے کے باوجود ہم سے بہتر نظر آتا ہے ، اصل حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں جہاں چائے نہیں پی جاتی وہاں پاکستان کےذریعے سالانہ ایک ارب ڈالر کی چائے امپورٹ ہورہی ہے اور پاکستان جہاں صبح شام چائے کے بغیر کوئی کام نہیں کیا جاتا وہاں سرکاری اعدا د شمار کے مطابق صرف سو ملین ڈالر کی چائے امپورٹ ہوئی ہے ،یعنی اس کامطلب یہ ہے کہ پاکستان سے افغانستان جانے والی چائے واپس اسمگل ہوکر پاکستان آتی ہے اور پھر پاکستان کی مارکیٹ میں بغیر ڈیوٹی ادا کیے فروخت ہورہی ہے جس سے پاکستان کو صرف چائے کی مد میں کئی سو ملین ڈالر کے ٹیکس کانقصان ہورہا ہے ،یہی حال پاکستان کے راستے افغانستان جانے والی ہر چیز کا ہے کہ وہ ٹرکوں میں افغانستان کے بارڈر کے اندر جانے کے چند روز بعد واپس پاکستان میں بغیر ڈیوٹی داخل ہوجاتی ہے اور پھر مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہوتی ہے ۔میری بات سن کر ،خان صاحب مسکرائے اور کہا بھائی جان یہ بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ میرا کپڑوں کا دھندہ ہے اور میں اپنے درجنوں کنٹینرز چین سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان لے جاتا تھا اور پھر اگلے روز چمن بارڈر واپس لے آتا تھا ، لیکن واپسی میں مجھے مارکیٹ تک یہ کپڑا پہنچانے کے لیے پچاس لاکھ روپے فی کنٹینر تک مختلف اداروں کے ذمہ داروں کو ادا کرنا پڑتے تھے لیکن اس کے باوجود میں فی کنٹینر دس سے پندرہ لاکھ بچا لیا کرتا تھا ،یعنی اگر یہ پچاس لاکھ فی کنٹینر حکومت کو ادا کردیں تو سال کے لاکھوں کنٹینر کے حساب سے پاکستان حکومت کوہزاروںارب کی آمدنی ہوسکتی ہے ، مطلب یہ کہ حکومت نے ایک تو ٹیکس بہت زیادہ رکھا ہے ،جبکہ لاکھوں روپے فی کنٹینر کی رشوت پاکستان میں ہی اداروں کو جاتی ہے ، اب یہ اسمگل شدہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہوں یا دیگر اشیاپورا ایک بلیک اکانومی کا نظام موجود ہے جو اس اسمگلنگ سے فائدہ اٹھاتا ہے ،اور کوئی نہیں چاہتا کہ اسمگلنگ کا خاتمہ ہو ، لیکن اگر حکومت واقعی اسمگلنگ کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو اشیا پر ٹیکس کم کردے اور ہر بارڈر پر ایماندار عملہ تعینات کردے جو کسی بھی طرح کی رشوت قبول نہ کرے پھر آپ دیکھیں افغانستان کی درآمدات موجودہ سطح سے بیس فیصد پر آجائیں گی اور پاکستان کی آمدنی میں ہزاروں ارب کااضافہ بھی ہوجائیگا لیکن آپ لکھ لو یہ رشوت مافیا کبھی ایسا نہیں ہونے دے گا یہ ایک اسمگلر کا دعویٰ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین