• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالیہ شمیم، کراچی

عید کا نام سُنتے ہی مرجھائے، بُجھے چہروں پر بھی رونق آجاتی ہے۔ اور پھر ہر سُو پھیلی خوشی و انبساط سے ماحول ہی خوش گوار نہیں ہوتا، چہار جانب گونجتی بچّوں کی چہکاریں، چُوڑیوں کی کھنکھناہٹیں، رنگ برنگے پیراہنوں کی بہار، منہدی سے سجے ہاتھ، معطّر فضائیں، معانقے و مصافحے اور میل ملاپ عید کی خوشیاں دوبالا کر دیتے ہیں۔ کیا امیر، کیا غریب، سبھی اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق عید کی خوشیاں مناتے ہیں اور کیوں نہ منائیں، عید اُمّتِ مُسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔ 

عید کے موقعے پر خوشی منانا، اُس کا اظہار کرنا ایک فطری تقاضا ہے، لیکن ذرا تھوڑی دیر کے لیے اپنے دِلوں کو ٹٹولیں، محاسبہ کریں کہ کیا ہم واقعی خوش ہیں۔ کہیں کوئی کسک تو ہمارے اندر نہیں پنپ رہی، کوئی پھانس تو دل میں نہیں اٹکی ہوئی۔ بدگمانیوں ، منفی خیالات نے قلب و ذہن توآ لودہ نہیں کر دیے۔ اگر ان تمام سوالات کا جواب اثبات میں ہے، تو پھر ہماری عید کی خوشیاں مصنوعی ہیں۔ یاد رہے کہ ہر وہ خوشی کہ جس میں ہمارے والدین، بہن بھائی، رشتے دار، عزیز و اقارب، دوست احباب اور پڑوسی شریک نہیں ، وہ خوشی نہ صرف ادھوری رہے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا بھی سبب ہے۔

عید، روزے داروں کا انعام بھی ہے اور رمضان المبارک میں خلوصِ نیّت سے کی جانے والی عبادات ، نیک اعمال کی قبولیت کے یقین کا ثمر بھی۔ لیکن جب زبانیں نشتر بن جائیں، ہر جانب نفسا نفسی و خود غرضی کے بادل منڈلائیں، اپنے مسلمان بھائیوں کا قتلِ عام ہوتا دیکھ کر بھی ہم پر بے حِسی طاری رہے، بُغض و عداوت، کاٹ دار الفاظ اور بد گُمانی کے نتیجے میں قطع رحمی عام ہو جائے اور حسد، غیبت اور بدگوئی جیسے منفی جذبات غلبہ پالیں، تو پھر ماہِ رمضان میں کی جانے والی تمام نیکیاں بالکل اُسی طرح اکارت ہو جائیں گی، جیسے کوئی سُوت کات کر خود ہی تار تار کر ڈالے۔ بہرکیف، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے دِل محبتوں سے لبالب بَھر لیں۔ ندامت کے آنسوئوں سے دِلوں پہ جمی بے حسی کی تہہ دھو ڈالیں۔ 

یاد رہے، زندگی ایک پگڈنڈی کی مانند ہے، جس میں اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ کبھی خوشیوں کی برسات ہوتی ہے، تو کبھی غموں کا بوجھ تھکا دیتا ہے اور انہی لمحات میں انسان خلوصِ دل سے اپنے ربّ سے رجوع کرتا ہے، تو عید کی سچّی خوشی کے حصول کے لیے بھی ربِّ کائنات سے اپنا تعلق استوار کیجیے، جو رات کے اندھیرے میں بھی سُنتا ہے اور دن کے اجالے میں بھی۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے اور تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ یعنی جسم کے کسی ایک عضو کو پہنچنے والی تکلیف پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ اگر ہم خود کو اُمّتِ مسلمہ کا حصّہ قرار دیتے ہیں، تو کیا فلسطین اور مقبوضہ کشمیر سمیت دُنیا کے کسی بھی حصّے میں مسلمانوں پر ہونے والے بہیمانہ مظالم کو یاد کر کے عیدِ سعید کے موقعے پر ہمارے دلوں میں کسک نہیں اُٹھے گی۔ 

سو، ہمیں کم از کم اس ظلم کے خلاف آواز ضرور بلند کرنی چاہیے اور اقتدار کے ایوانوں تک اپنا احتجاج پہنچانا چاہیے، نیز اگر والدین ، بہن بھائی یا کوئی عزیز، رشتے دار ہم سے ناراض ہیں، تو ہم پر لازم ہے کہ اُنہیں جلداز جلد راضی کریں۔ اپنی زبان کو محبت کی چاشنی سے میٹھا کریں اور پھرخود غرضی کا لبادہ اُتار کر اُنہیں گلے لگالیں۔ ایک دوسرے کو’’ تقبّل اللہ منا ومنکم‘‘ کہہ کر عید کی مبارک باد دیں۔اور… یہ سب کرتے ہوئے جب ہم اپنے دل کو ٹٹولیں گے، تو ہمیں سچّی خوشی کا احساس ہوگا۔ 

نیز، عید کے پُرمسرّت موقعے پر اُن کو بھی یاد رکھیں کہ جن کا آپ سے مذہب اور انسانیت کا رشتہ ہے۔ جن کی ٹوٹی پُھوٹی جھونپڑیوں کی ویرانیاں آپ کی تھوڑی سی مالی معاونت سے دُور ہو سکتی ہیں اور ہلالِ عید اُن کے لیے بھی خوشیوں کا پیام بَر ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ کسی کسک اور پھانس کے بغیر سچّی خوشی ہی قلب کو طمانیت سے معمور کرتی ہے۔ رمضان المبارک نیکیوں کا موسمِ بہار ہے، تو عید اُس کا پھل اورا جر۔ اور ماہِ صیّام میں انفاق، ایثار، ہم دردی و غم گُساری سے تعلق باللہ مضبوط و مستحکم کرنے والوں ہی کو عید کے روز سچّی خوشی کی صُورت میٹھا پھل نصیب ہوتا ہے۔