• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایامِ آلام و مصائب میں بھی عید منانا سنتِ رسولﷺ ہے

نادیہ ناز غوری، کراچی

دینِ اسلام نے اُمّتِ مسلمہ کو عیدین کی صورت بہترین تحفہ عطا کیا ہے۔ عید الفطر کہ جس کے تصوّر ہی سے مشّامِ جاں معطّر، قلب و رُوح سرشار اور گلشنِ ہستی میں بہار در آتی ہے، وہیں ماہِ رمضان کے فراق پر دل مغموم اور چشم پُرنم ہوجاتی ہے۔ بہ قول قاآنی؎ عیدِ رمضان آمد و ماہِ رمضان رفت...صد شکر کہ این آمد، صد حیف کہ آن رفت۔ یعنی عیدِ رمضان آئی اور ماہِ رمضان چلا گیا، صد شُکر کہ یہ آئی اور صد افسوس وہ چلا گیا۔

حضرت ابو مسعود غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سُنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا علم ہوتا، تو وہ خواہش کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘ بے شک، مسلمان کی عید اور اس کی خوشی عبدیت کے فرائض کی احسن انداز میں بجا آوری ہی میں ہے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ،’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس، تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پالے، تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 184) 

یہ رمضان المبارک کی وہ امتیازی خصوصیت ہے، جو کسی دوسرے مہینے کو حاصل نہیں۔ اِس سے بڑا امتیاز اور کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے باقی مہینوں کو چھوڑ کر اپنی آخری کتابِ ہدایت کو دُنیا میں بھیجنے کے لیے اِس با برکت مہینے کو منتخب فرمایا اور اس مہینے کو نزولِ قرآن کی میزبانی کا شرف و اعزاز بخشا۔ امّتِ مسلمہ اللہﷻ کے اس محبوب مہینے میں، اپنے ربّﷻ کی تابع فرمانی (رمضان کے روزے رکھنے) میں پُورا اُترنے کی عید مناتی ہے۔

تاہم، امسال عید کچھ ان حالات میں آ رہی ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ، خواتین اور بچّوں کا قبرستان بن چُکا ہے اور ہر سُو آگ و بارود کی بارش اور موت کا وحشیانہ رقص جاری ہے۔ ایسے میں ہلالِ عید کی آمد اُمتِ مسلمہ کے غم کا تازہ کرنے کا باعث بنے گی۔

بہ قول اقبالؔ ؎ عید کا چاند آشکار ہوا...تیر غم کا، جگر کے پار ہوا...آنکھ میں تارِ اشکِ پیہم ہے...کیا رواں آبِ خنجرِ غم ہے...دیکھ اے ضبط! گِر نہ جائے کہیں...اشکِ غم، آبروئے ماتم ہے...اے مہِ عید! تو ہلال نہیں...سینہ کاوی کو ناخنِ غم ہے...اس گلستاں میں آشیاں ہے مِرا...ہر شجر جس کا نخلِ ماتم ہے...کس کے نظّارۂ مصیبت کو...ماہ بامِ فلک پہ یوں خم ہے...خونِ امید ہے، یہ اشک نہیں...کس بھلاوے میں، چشمِ پُرنم ہے۔

ہم نبیٔ اکرم حضرت محمد ﷺ کے امّتی ہیں، وہ نبی ﷺ کہ جن پر سخت آزمائشیں آئیں، آلام و مصائب کے پہاڑ ٹوٹے، مگر زبانِ مبارک سے کبھی یہ نہ کہا کہ ’’ہم عید نہیں منائیں گے۔‘‘ کبھی تہوار منانے سے انکار نہیں کیا۔ اس لیے سنّتِ رسول اللہ ﷺ کے مطابق سادہ لباس پہن کر سادگی سے عید ضرور منائیں۔ رمضان المبارک اور حجِ بیت اللہ، ہر دو ارکانِ اسلام کے ساتھ منسلک عیدوں کے حوالے سے نبیٔ کریمﷺ کا فرمان ہے کہ حقیقی خوشی احکامِ الہٰیﷻ کی اطاعت ہی میں مضمر ہے اور اس خوشی کے اظہار کا طریقہ بھی اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تحمید، ذکرِ الٰہی اور شُکرانِ نعمت ہے۔ 

خدمتِ خلق اور بنی نوع انسان کے دکھوں کو دُور کرنا ہی تو عید کی حقیقت ہے۔ دینِ اسلام نے عید الفطر کے موقعے پر صدقۃ الفطر ہر ایک پر واجب قرار دے کر اور عید الاضحی کے موقعے پر قربانیوں کے گوشت میں غربا کا حصّہ مقرر کر کے اس طرف توجّہ دلائی ہے کہ محروم طبقات اور تکلیفوں، تنگیوں میں مبتلا افراد کو عید کے موقعے پر یاد رکھنا اور اُن کو اپنی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا بھی ہماری ذمّے داری ہے۔ 

نبی کریمﷺ نے صدقۃ الفطر کو ایک نظام کے تحت اکٹھا کر کے، منظّم صُورت میں تقسیم کرنے کا طریقہ سکھا کر غُربا کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی مدد و اعانت کرنے کا اسوہ قائم فرمایا ہے۔ آج ہم نے اُسی اسوۂ رسولﷺ پر عمل پیرا ہونا ہے اور اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنی ہے تاکہ وہ بھی عید کی خوشیاں منا سکیں۔

مانا کہ آج حالات بہت کٹھن ہیں۔ ہر شخص سیلِ غم و حوادث میں بہہ رہا ہے، مگر مشکل حالات میں استقامت و استقلال، سنّتِ نبویﷺ ہے۔ اس ضمن میں اسرار الحق مجازؔ نے کیا خوب کہا ہے کہ؎ بہ ایں سیلِ غم و سیلِ حوادث...مِرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے۔ اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں، اُمید کی کرن سا فیض کاؔ تخیّل ہےکہ ؎ روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں...گلشن میں چاک، چند گریباں ہوئے تو ہیں....اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں.... گوشے رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں....ٹھہری ہوئی ہے، شب کی سیاہی وہیں مگر....کچھ کچھ سحر کے رنگ پُرافشاں ہوئے تو ہیں....ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل....محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں....ہاں، کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم....اب بےنیاز گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں....اہلِ قفس کی صبح، چمن میں کھلے گی آنکھ....بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں.... ہے دشت اب بھی دشت مگر، خونِ پا سے، فیضؔ...سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں۔ اور بہ قول اختر شیرانیؔ ؎ انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا...اندھیری رات کے پردے میں، دن کی روشنی بھی ہے۔

آئیے، امسال حقیقی عید منائیں۔وہ عید ،جو نبی کریمﷺ اور صحابۂ کرامؓ کی عید تھی۔ ایسی عید، جو اللہ ربُّ العزّت کی رضا و خوش نودی کی عید اور بنی نوع انسان کے دُکھوں کو کم کرنے اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کی عید ہو۔ ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں اور ہمارے ہم وطنوں کو ہماری اعانت، ہم دردی اور امداد کی ضرورت ہے۔ ہمیں عید کی خوشیاں مناتے وقت اپنے فلسطینی بھائیوں کو ہرگز نہیں بُھولنا اور نمازِ دوگانہ میں اللہ تعالیٰﷻ کے حضور خصوصی دُعا کرنی ہے کہ وہ ہمارے مظلوم فلسطینیوں بھائیوں کو اسرائیل کے مظالم سے جلد از جلد نجات عطا فرمائے۔ آمین۔