• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14اگست 2016ء میری یادوں کے نہاں خانوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اُس دن چند گاڑیوں اور ایک ایمبولینس کا کارواں یونی ورسٹی روڈ سے گزرتا ہوا جامعہ کراچی میں داخل ہوا، جہاں ایک شیخ الجامعہ اپنے نام سے منسوب لائبریری میں دوسرے شیخ الجامعہ کے منتظر تھے، جو اُن کے پڑوسی بننے والے تھے۔ 

جامعہ کراچی نے تو اگرچہ ان کے نام سے کوئی ادارہ نہیں بنایا تھا، مگر وہ خود اپنی چار سالہ مدّتِ ملازمت کے دوران اس کے احاطے میں اپنی تحریر کردہ ڈھیروں کتابوں، مضامین، خطوط، مسوّدے، مخطوطات، اعزازات اور جمع شدہ ہزاروں قیمتی کتابوں کا تحفہ ایک سفید عمارت کی صورت پیش کرنے آرہے تھے۔ 

پیرانہ سالی کے باعث وہ اپنی ٹانگوں پہ چلنے پر قادر نہ تھے، قوتِ گویائی میں دقّت کے علاوہ انگلیاں حروف لکھنے سے قاصر تھیں، مگر آنکھیں تب بھی روشن تھیں، جن سے بے پناہ خوشی اور امنگ صاف جھلک رہی تھی۔ معلوم نہیں، حافظہ کام کررہا تھا یا نہیں، مگر ہاں، جب مَیں نے اُن کے سامنے جھک کر سلام کے بعد پوچھا ’’جالبی صاحب! مجھے پہچانتے ہیں؟‘‘ تب پتلے پتلے ہونٹوں پر خوب صورت مسکراہٹ کے ساتھ میرے سوال کا جواب دیا، تو مَیں خوشی سے نہال ہوگئی۔ گزشتہ پچاس سال کی قربت اُس ایک مسکراہٹ ہی کی طلب گار تھی۔

اُس دن جامعہ کراچی کے یہ سابق شیخ الجامعہ ہاتھ میں قلم کے بجائے ایک پتّھر اٹھائے ہوئے تھے کہ جس سے انہوں نے زمین کے اُس خوش قسمت گوشے کوجگمگا کر رکھ دیا۔ ہر ذی روح کی طرح ڈاکٹر جالبی بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ بلاشبہ، دنیا سے تو سب ہی کو جانا ہے، لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ جانے والا اپنے پیچھے کیا چھوڑ گیا ہے، اولاد، خاندان، جائیداد..... حالاں کہ یہ سب بھی گردِ راہ ہوجاتے ہیں۔

اگر کچھ باقی رہ جاتا ہے، تو وہ صرف جانے والے کا کام اور اُس کی گراں قدر خدمات ہوتی ہیں۔ یوں تو میرجعفر اور ٹیپو سلطان، دونوں کا نام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ایک کا نام تاریخ میں سیاہ حروف جب کہ دوسرے کا سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹرجمیل جالبی اپنے نام ہی کی طرح جمیل اور خوب صورت انسان تھے، طویل القامت، خوش رو، خوش لباس اور پھر اُن کے ہاتھوں کی گرفت میں آئے قلم نے توایسا کمال کیاکہ جوش صاحب بھی بے ساختہ کہہ اٹھے ’’اب اور کیا چاہتے ہو، پیمبری مل جائے.....؟‘‘جالبی صاحب شہرت و مقبولیت کی ایسی منزل تک پہنچے، جو ’’آفتابِ آمدِ، دلیلِ آفتاب‘‘ کی منزل ہے۔ جب ہی تو جوش صاحب نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ’’جالبی چشمِ بددور، نکیلے جوان اور طباع انسان ہیں۔ 

ان کی آنکھوں میں ذہانت کی چمک اور لہجے میں شرافت کی کمک پائی جاتی ہے۔ قدرت نے انھیں سخن فہمی اور بذلہ سنجی کاجوہر بھی عطا کیا اور برمحل صحیح بات کہنے کی صلاحیت بھی دی۔ ان کی شخصیت میں جاذبیت اور ان کی عقل میں تابانی کاامتزاج ہے۔‘‘

ڈاکٹر جمیل جالبی، بھارت کی ریاست ’’اتر پردیش‘‘ کے شہر علی گڑھ میں 12جون 1929ء کو پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام محمد ابراہیم خاں اور والدہ کا نام اکبری بیگم تھا۔ آباء و اجداد سوات سے ہجرت کرکے اٹھارہویں صدی میں ہندوستان آئے تھے۔ جمیل جالبی نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ ہی سے حاصل کی۔ 1943ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول، سہارن پور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پھر 1945ء میں میرٹھ کالج سے انٹرمیڈیٹ اور1947ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ 

جامعہ کراچی میں اپنے نام سے منسوب لائبریری کا سنگِ بنیادرکھتے ہوئے
جامعہ کراچی میں اپنے نام سے منسوب لائبریری کا سنگِ بنیادرکھتے ہوئے

زمانۂ طالب علمی ہی سے علمی و ادبی ذوق و شوق رکھتے تھے۔اُن کی پہلی تخلیق ’’سکندر اور ڈاکو‘‘ تھی، جو اُنھوں نے بارہ سال کی عُمر میں تحریر کی۔ تعلیم کے ساتھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اُن کی تحریریں دہلی کے رسائل ’’بنات‘‘ اور ’’عصمت‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ کالج میں حصولِ تعلیم کے دوران اُنھیں ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر غیور احمد رزمی، پروفیسر کرّار حسین، فخرالاسلام اور پروفیسر مظہری جیسے لائق فائق اساتذہ سے رہنمائی حاصل کرنے کے وسیع تر مواقع میسّر آئے اور ان کی ادبی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا۔

اُن کا اصل نام محمد جمیل خان تھا۔ اُردو زبان و ادب کے صحافی سیّد جالب دہلوی اُن کے دادا کے ہم زلف اور والد کے خالو تھے۔ جالب دہلوی اُس زمانے میں اُن کے لیے آئیڈیل شخصیت تھے، چناں چہ اسی نسبت سے اُنھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’جالبی‘‘ کا اضافہ کرلیا اور اس اضافے کے ساتھ جمیل جالبی کے نام سے لکھے اور پکارے جانے لگے۔

جمیل جالبی13اگست 1947ء کو اپنے بھائی محمدعقیل خان کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے اور کراچی کو اپنامسکن بنایا۔ یہاں پہنچ کر حصولِ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران اُن کے والد بھارت سے اُن کے اخراجات اٹھاتے رہے اور پھر 1956ء میں والدین بھی مستقل طورپر پاکستان منتقل ہوگئے اور یہیں وفات پائی۔ ڈاکٹر جالبی یکم نومبر 1952ء میں اپنی خالہ زاد کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے اوراُن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

یوں توجالبی صاحب کی سیرت و شخصیت پر لکھنے کے لیے الفاظ کی طویل فہرست موجود ہے، لیکن اگر صرف اتنا بھی کہہ دیاجائے کہ ’’وہ جمیل بھی تھے اور خوش جمال بھی۔ خوش صورت، خوش سیرت تھے، تو ادیب اور ادب نوازبھی۔‘‘ تو کافی ہوگا۔ اپنے تاریخی نوعیت کے کاموں اور ایک دانش وَرکی حیثیت سے وہ قبیلۂ ادیباں کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے رفقاء کہتے تھے کہ ہم نے ان سے زیادہ ناآسودہ انسان نہیں دیکھاکہ انہیں اپنے کام سے کبھی مطمئن نہیں پایا۔ 

ان کی نظر ہمیشہ اپنی کم زوریوں پر رہتی۔ ہر وقت اسی ادھیڑ بن میں رہتے کہ کس طرح اپنی تحریر و فکر کو خوب سے خوب تر بنائیں۔ جالبی صاحب نے ایک بار کہا تھا ’’میں تو ہر وقت حالتِ سفر میں رہتاہوں۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میرے ذہن پر سب سے زیادہ اثر کس کا ہے؟ مَیں اُن کا جواب نہیں دے پاتا۔ سفر میں توانسان ہر روزنئی چیزیں دیکھتا ہے۔ نئے نئے مناظر اس کے سامنے آتے ہیں۔ کسی ایک سے متاثر ہوکراس لکیر کو پیٹنے کے معنی تویہ ہیں کہ سفر، حضر میں بدل گیا ہے۔ مسافر نے قیام کرلیا ہے، پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ مگر چلتے رہنا ہی زندگی ہے اور زندگی بہت مختصر ہے۔‘‘

مجھے یادہے مَیں نے ایک بارجالبی صاحب سے شکوہ کیا تھا کہ ’’آپ تقاریب میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ ہم نام دیکھ کر اس تقریب میں جاتے ہیں کہ آپ کو سنیں گے، کچھ سیکھیں گے، مگر جب آپ کو وہاں نہیں پاتے، تو مایوسی ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے کچھ دیر خاموشی کے بعد بڑی گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’’تقاریب کا میں مخالف نہیں، مگرتقاریب میں بہت وقت صرف ہوجاتا ہے۔ 

جب کہ محفل کے اختتام پر تاریخ کا وہ صفحہ پھٹ جاتا ہے۔ اور پھر زندگی بہت مختصر ہے۔ مَیں نے جو کام اپنے ذمّے لیا ہے، اُس میں ایک نہیں، دو زندگیاں چاہئیں، جو یقیناً کسی کو نہیں ملتیں۔ بس مَیں وہ وقت بچا لیتا ہوں، کچھ پڑھ لیتا ہوں، تحقیق میں مصروف ہوجاتا ہوں اور پھرکچھ لکھ لیتا ہوں۔ اصل میں مَیں نے جب خود کو کھنگالا تو معلوم ہوا کہ مَیں تقاریب کا آدمی ہی نہیں ہوں۔‘‘ جالبی صاحب نے زمانۂ طالب علمی ہی سے وقت کو گویا اپنی مٹّھی میں قید کرلیا تھا اور وقت کی اہمیت بھی جان لی تھی۔ تب ہی تو اپنے روز و شب ’’وقت‘‘ کو پیش کردیئے۔ ڈھیروں ایسی کتابیں لکھیں، جس کے ایک ایک حرف کی نوک پلک خوب سنواری۔ 

وہ باتیں لکھیں، جو امر ہوگئیں، مٹانے سے بھی نہ مٹیں۔ وہ تاریخ مرتّب کی، جو واقعی تاریخ بن گئی۔ وہ تحقیق کی، جو تحقیق کی مستحق تھی۔ ایسی ادارت کی کہ آنے والا مدیر سبق سیکھے۔ انھوں نے بامعنی اور بے غرض صحافت کے ساتھ بہترین ترجمہ نگاری اور لغت نویسی میں بھی متعدد اصول وضع کیے۔ وہ وقت کی قدر و منزلت سے خوب واقف تھے، ہر کام وقت پر کیا، تو اس کی داد بھی ملی۔ وہ کہتے تھے کہ اصل چیز کام ہے، اس کی خوشبو ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اگر میں نے کچھ کام کیا ہے، تو اس کی خوشبو، آج نہیں، تو کل ضرور پھیلے گی۔

انھوں نے ترجمہ نگاری، ادبی تاریخ نویسی، مقالہ نگاری، مضمون نگاری، تحقیق و تدوین، مقدمہ نویسی، دیباچہ نویسی اور تبصرہ نگاری میں اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اُن کی تصنیفات و تالیفات اور تراجم میں تاریخ زبانِ اُردو (چار جلدیں)، جانورستان، ادب، کلچر اور مسائل، تنقید اور تجربہ، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک، میراجی، ایک مطالعہ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی، فرہنگِ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ، میر تقی میر، نئی تنقید، معاصر ادب، ن۔م راشد، ایک مطالعہ، قدیم اُردو لغت، ادب، کلچر اور مسائل، مثنوی نظامی دکنی المعروف بہ مثنوی کدم راؤ، پدم راؤ، حیرت ناک کہانیاں، بارہ کہانیاں، قلندر بخش جرأت، لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، قومی زبان، یک جہتی نفاذ اور مسائل، پاکستانی کلچرکی تشکیل، خوجی، ادبی تحقیق، قومی انگریزی اُردو لُغت، برصغیر میں اسلامی جدیدیت، برِصغیر میں اسلامی کلچر، بوطیقا از ارسطو، بزمِ خوش نفساں، پاکستان، ڈی آئیڈینٹیٹی اور قانونِ شراکت 1932ءکے علاوہ متعدد ادیبوں اور مصنّفین کی تصنیفات و تالیفات پر لکھے مقدمے، دیباچے اور پیش لفظ بھی شامل ہیں۔ اُن کے مقدمے اور دیباچے عمدہ تنقید و تحقیق کے مظہر ہیں، تواسی طرح اُن کے لکھے تبصرے اور اداریے بھی اُردو ادبی صحافت کے بہترین نمونے ہیں۔

اِن علمی و ادبی کارناموں کے ساتھ اُنھوں نے 1983ء سے 1987ء تک کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔1987ء میں مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد کے چئیرمین مقرر ہوئے۔ اُردو لغت بورڈ، کراچی میں صدر کی حیثیت سے 1990ء سے 1997ء تک خدمات انجام دیں۔ اُن کے بورڈ میں عرصہُ صدارت کے دوران اُردو لغت کی چھے جلدیں، جلد یازدہم، تا جلد شائزدہم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ادارت میں شائع ہوئیں۔ وہ انجمن ترقئ اُردو پاکستان، کراچی کے متولی، خازن اور کئی علمی و ادبی اداروں کے بورڈ آف گورنرز کے رُکن بھی رہے۔ 

حکومتِ پاکستان کی طرف سے اُن کی بے پایاں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں1990ء میں ستارۂ امتیاز اور 1994ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے بھی ادب کا اعلیٰ ترین اعزاز ’’کمالِ فن‘‘عطا ہوا۔ کسی نے ایک بار ان کے کام سے متاثر ہوکر کہا ’’جالبی صاحب! آپ ایک دہائی میں کیفیت و کمیت کے اعتبار سے اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ شاید ہی برِعظیم پاک و ہند میں کسی نے لکھا ہو۔‘‘ تو اُن کی بات سے اُن کے چہرے پر سرخی سی پھیل گئی، آنکھیں بھی نم ناک ہوگئیں۔ وہ دراصل اپنی تعریف سن کرایسے ہی ہوجاتے تھے، شرما جاتے تھے۔ اسی طرح ایک صاحب جب ان کے سامنے ان کے انعامات و اعزازات کی فہرست دہرانے لگے تو جالبی صاحب کا انداز ایسا تھا، جیسے کسی دوسرے کے بارے میں گفتگو ہورہی ہو۔ 

جالبی صاحب کو بے پناہ تعلیمی و ادبی خدمات کے صلے میں، زندگی میں تو درجنوں اعزازات سے نوازا گیا، مگر بعد ازمرگ بھی اُن کے حصّے میں ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ آیا۔ وہ دل کے صاف، زبان کے کھرے، بہت صاف گو اور متوازن انسان تھے۔ عموماً خاموش یوں رہے کہ بولنے سے سوچنا بہتر خیال کرتے۔ لکھنا ان کا مشغلہ بھی تھا، ضرورت بھی اور شوق بھی۔ دراصل انہیں ہرلمحے شام ہونے کا کھٹکا لگا رہتا۔ سمجھتے کہ دونوں وقت مل رہے ہیں، کبھی بھی بلاوے کی گھنٹی بج جائے گی۔

قلم رکھ دینا پڑے گا، اوراق اڑنے لگیں گے، انہیں سمیٹ کر رکھ لیں، بس ایسا کچھ کرکے تیار رہیں کہ زمانے کو بہت یاد رہیں۔ اور ہوا بھی ایسا ہی، جالبی صاحب اپنی خواہش کے مطابق ہماری ادبی، علمی، تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے باوقار نمائندہ بن کرآج بھی جی رہے ہیں۔ جب کہ اجل نے اپنے اٹل وجود اورقدرت کے طے شدہ فیصلے کی بنیاد پر5سال قبل، 18اپریل 2019ء کو اُن کاجسمانی وجودچھین لیا تھا۔ لیکن وہ اپنے کام کا جھنڈا لہرا کر، مسکرا کے، بہت اطمینان سے گویا موت سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ’’جی جان سے کیا ہوا کام کبھی مرتا نہیں اور کام کرنے والا بھی امَر ہو جاتا ہے۔‘‘

پانچ سال گزرگئے، اجل اُن کاجسم اپنے ساتھ لے گئی، یہ حقیقت ہے۔ مگر اُن کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ مَیں آج بھی انہیں جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کی عمارت کا پہلا پتھر نصب کرتے دیکھ رہی ہوں اور اُن کے ساکت جسم کو بھی۔ جب انہوں نے اپنا آخری سفید لباس پہنا تھا اور بہت سکون سے سو رہے تھے، مَیں نے جھک کر ایک بار پھر پوچھا تھا، ’’آپ مجھے پہچانتے ہیں؟‘‘ اور ساتھ ہی عقیدت بَھرے دو موتی آنکھ سے ٹپک کر ان کے سفید لبادے میں جذب ہوگئے تھے اور تب مَیں نے یہ عہد کیا تھا کہ ’’مَیں اپنی زندگی کی آخری سانس تک اُن کے نام اور کام کی قدر دانی اور پزیرائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہوں گی۔‘‘