• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات پہ لکھوں، کچھ بھی کر لوں، حکمرانوں پر اثر نہیں ہو گا۔ شاید وہ وقت آ گیا ہے جس سے متعلق نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا "لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ ان کا مقصد ان کا پیٹ ہو گا، دولت ان کی عزت ہو گی، عورت ان کا قبلہ ہو گی، روپیہ ان کا دین ہو گا، وہ بد ترین لوگ ہونگے اور آخرت میں ان کا حصہ نہیں ہو گا"۔ اس حدیث مبارکہ کا ہر ہر لفظ اہم مگر دولت کے حوالے سے دو جملے ہمارے آج کے معاشرے کے عکاس ہیں، واقعتاً لوگوں نے دولت کو عزت اور روپے پیسے کو دین سمجھ رکھا ہے۔ اپنے معاشرے کا جائزہ لیں، معاشرے کا ہر طاقتور دولت کے حصول کیلئے اندھا ہو گیا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں بڑے بڑے عہدیدار بھی شامل ہیں، حکمراںتو کب کے دولت کے حصول میں اندھے تھے، ان کے لئے یہ مقام عبرت نہیں کہ دنیا کے کئی ملکوں کے نصابوں میں انہیں کرپٹ سیاستدانوں کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، ان کے لئے یہ بات بھی حرف ندامت نہیں کہ عالمی میڈیا ان کی کرپشن کی داستانیں بیان کر چکا ہے، جب عہدیدار ایسے افراد سے مل جائیں تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے؟ پھر تو یہی بات صادق آتی ہے کہ لوگوں نے دولت کو عزت سمجھ رکھا ہے۔ پاکستان کے کتنے سول سرونٹس ایسے ہیں جن کی نوکریاں پاکستان میں ہیں اور انہوں نے کینیڈا جیسی زمینی جنت کی شہریت بھی لے رکھی ہے، ان کی تنخواہیں تو اتنی نہیں کہ وہ کینیڈا جیسے ملک میں گھر لے لیتے مگر حیرت ہے دولت کی اندھی دیوی پر، اس نے ان کے خاندانوں کو کینیڈا کی شہریت بھی دلوا دی، کینیڈا میں گھر بھی بنوا دیئے اور وہاں کاروبار بھی کھلوا دیئے، کسی نے ان افسران سے پوچھا؟ بالکل بھی نہیں۔ یہی حال ہماری ملٹری بیوروکریسی کا ہے، جرنیلوں کی اکثریت ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے حسین وطن میں رہنا پسند نہیں کرتی بلکہ ان میں سے کچھ دوسرے ملکوں کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بے عزت ہونا پسند کر لیتے ہیں، فوجی افسران کے ریٹائرمنٹ کے بعد باہر سیٹل ہونے پر پابندی ہونی چاہئے کہ ان کے سینوں میں ملک کے اہم راز ہوتے ہیں، جسے باہر جانے کا شوق ہو وہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی تمام سہولتوں، پلاٹ، زمینیں، پنشن اور قومی اعزازات واپس کرے اور پھر جائے۔ اسی طرح ہماری عدلیہ میں شامل ہونے والے لوگ بھی دولت کی ریل پیل کا شکار ہیں، کوئی چیک تو کرے صبح آٹھ بجے سے لے کر گیارہ بجے تک صرف تین گھنٹوں میں لاہور ہائیکورٹ کے آس پاس روزانہ دو ارب کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے، اسی حساب سے باقی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، انصاف قائم کرنا بہت اعلیٰ عمل ہے مگر جب یہاں بھی دین روپیہ پیسہ بن جائے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے باقی محکمے جن میں پولیس، بجلی، آبپاشی، زراعت، گیس، ٹیکس اور دیگر شامل ہیں، وہاں بھی دولت کا جو کمال دکھا رہا ہے۔ پورے ملک کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں کرپشن نہ ہو، اسپورٹس ایسوسی ایشنوں کے عہدیدار اتنی دولت ہڑپ کرتے ہیں کہ کھلاڑیوں کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں، حالت یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کی خواتین کھلاڑی لاہور میں ایک دستر خوان پر روزہ کھولتی ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے "جس معاشرے میں کوئی بھوکا سو جائے تو سمجھ لو اس کے حصے کی روٹی کوئی اور کھا گیا"۔ اب آپ اپنے معاشرے کا جائزہ لیں، اس میں کتنے لوگ بھوکے سوتے ہیں اور کتنوں کی روٹیاں کوئی اور ہڑپ کر جاتا ہے۔ کاش! یہاں زکوٰۃ کا نظام ہی درست ہوتا، افسوس! اس میں بھی کرپشن ہے، کاش یہاں یتیم خانے درست ہوتے مگر کاش ایسا نہیں۔ میرا پیارا وطن جس خطے میں ہے، اسے دنیا سونے کی چڑیا کہا کرتی تھی، یہاں کی کپاس کو دیکھ کر گورے پاگل ہو گئے کہ ہم نے ایسے پودے دیکھے ہیں جن پر چاندی پڑتی ہے، بہت سے فاتحین اس خطے سے لوٹ مار کرتے رہے، اس خطے کی امارت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مغلیہ دور میں اس کا جی ڈی پی چوبیس فیصد تھا، اس وقت برطانیہ کا جی ڈی پی چھ فیصد تھا مگر جب انگریز یہاں سے گیا تو برطانیہ چوبیس فیصد پر چلا گیا اور ہم چھ فیصد پر آ گئے۔ آج ڈالر ہمارے سامنے پہاڑ بنا ہوا ہے، 1923ء میں 13 ڈالروں کا ایک انڈین روپیہ تھا۔ 1951ء میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر صرف تین روپے کا تھا اور 1972ء میں جب ہمارا آدھا ملک ہم سے الگ ہو چکا تھا، ڈالر صرف پانچ روپے کا تھا مگر اس کے بعد رہبر، رہزن بن گئے۔ لوگوں نے ملک سے زیادہ اپنی ذات سے محبت شروع کر دی، ذاتی مفادات کے چکر میں دولت کو اپنی باندی بنانا شروع کیا، لوگوں کی جائیدادیں بن گئیں، ملک محروم ہوتا چلا گیا۔ اب ملکی ادارے بک رہے ہیں، کاش! یہ نہ بکتے، اے کاش مگر کاش یہ ہے کہ بیچنے والوں میں سب شامل ہیں۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ صرف اقبال کا شعر پیش کر سکتا ہوں کہ

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

تازہ ترین