• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میدان صحافت میں ہمہ وقت سیاستدانوں کا ذکر ہوتا ہے یا پھر ریاستی اداروں کا ۔ ان پر روز تبرا بھیجا جاتا ہے لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم ایک بگڑی ہوئی قوم یا انسانوں کا ایک ریوڑ بن چکے ہیں اور ہر کوئی اپنی جگہ کسی حکمران سے کم نہیں، بس موقع ملنے کی بات ہے ۔ ہمارے ملک کے ایک سنجیدہ دانشور ڈاکٹر ساجد حمید نے ہمارے برعکس ریاست کی بجائے فرد کو اور سیاست کی بجائے دعوت کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے ۔ ان کی دو کتابیں 1۔ہم پر مشکلیں کیوں آتی ہیں اور 2۔صبر کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جائے؟، میں نے کسی زمانے میں پڑھی تھیں اور بہت دل کو لگی تھیں۔ اب انہوں نے پاکستانی معاشرے کو لاحق امراض کے حوالے سے ایک سیریز مرتب کی ہے ۔ گزشتہ ہفتے میں نے مفاد عامہ کیلئے ان کے ساتھ ٹی وی پروگرام بھی کیا ۔ انہوں نےجو کچھ ارشاد فرمایا ، اس کو میں اپنے الفاظ میں تحریر کررہا ہوں ۔ میں نے ممکنہ حد تک کوشش کی ہے کہ ہر بیماری سے متعلق ان کے مافی الضمیر کو اپنے الفاظ میں بیان کرسکوں لیکن اگر کہیں کمی بیشی ہوئی ہو تو اس پر میں ان سے اور آپ سے معذرت خواہ ہوں۔وہ پاکستانی معاشرے کو لاحق بیماریوں میں سرفہرست خود پسندی کو رکھتے ہیں اور پھر اس کی یوں دلیل دیتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے

خود پسندی:جھوٹ کی طرح خود پسندی بھی برائیوں کی ماں ہے ۔ یہ بیماری قومی اور انفرادی دونوں سطحوں پر ہمارے قومی وجود میں سرایت کر چکی ہے ۔ جو لوگ نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ ان میں بھی کوئی غلطی یا خامی ہوسکتی ہے ۔ اس طرح کے لوگ اپنی اصلاح نہیں کرسکتے۔بہترین امت کا غلط تصور:یہ خودپسندی کی عادت کا مذہبی تصور ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بہترین امت ہیں حالانکہ قرآن نے بہترین امت ہونے کیلئے کچھ اوصاف بیان کیے ہیں ۔ ہم میں وہ صفات نہیں رہیں لیکن ہم پھر بھی اپنے آپ کو بہترین امت سمجھتے ہیں۔

تکبر:اچھا لگنا کوئی بری بات نہیں لیکن تکبر یہ ہے کہ انسان اپنی کسی بڑائی کی وجہ سے دوسرے کی صحیح بات بھی قبول نہ کرے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے۔اس وقت اس ملک میں کم و بیش ہر بندہ کسی صفت کی وجہ سےیا دولت کی وجہ سے حتیٰ کہ کسی نیک صفت کی وجہ سے تکبر کا شکار ہے۔ حالانکہ دینی تعلیم یہ ہے کہ ایک اونٹ تو سوئی کےناکے میں سے گزر سکتا ہے لیکن متکبر آدمی جنت میں نہیں جاسکتا۔تکبر کی بیماری بھی ایسی بیماری ہے جس سے دیگر سینکڑوں بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

جذباتیت:جذبات اچھی صفت ہے لیکن اگر اسے منفی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو فساد جنم لیتا ہے ۔ہم چیزوں کو دلیل اور مشاہدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ جذباتی بنیاد پر دیکھتے ہیں ۔

بدگمانی :بغیر ثبوت کے کسی کے قول یا اقدام کو منفی معنوں میں لینا بدگمانی ہے ۔یہ بدگمانیاں گھروں کو اجاڑتی ہیں۔ بدگمانی نفرتوں کو ہوا دینے کا اہم ذریعہ ہے ۔حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ اگر کسی کی بات میں سو منفی اور ایک مثبت پہلو ہو تو مثبت کو اپنانا چاہئے۔

جھوٹ:جھوٹ ساری خباثتوں کی ماں ہے لیکن ہماری سوسائٹی میں جھوٹ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ لگتا ہے اسے بولنا لوگ فرض سمجھتے ہیں ۔ جھوٹ تمام برائیوں کے اوپر چھائوں کا کام کرتا ہے۔ سچ بولنے سے بہت ساری برائیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری سوسائٹی میں ایک دوسرے پر اعتبار ختم ہوگیا اور عالمی سطح پر دنیا ہم پر اعتبار نہیں کرتی۔ حالانکہ نبی کریم ﷺفرمایا کرتے تھے کہ ایک دل میں جھوٹ اور ایمان اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ دین کو دنیا کے فائدے کی چیز سمجھنا: برصغیر میں زیادہ تر یہ رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ لوگ دنیوی فائدےکیلئے دینی افعال سرانجام دیتے ہیں ۔ نیکی اللہ کی رضا کیلئے ہونی چاہئے لیکن ہم نیکی بھی دنیاداری کیلئے کرنے لگے ہیں ۔ نماز اس لئے پڑھنی ہے کہ رزق میں برکت ہوگی اور روزہ اس لئے رکھنا ہے کہ صحت اچھی ہوجائے۔

چغلی اور غیبت:چغلی دوسرے کے کام کو بگاڑنے یا اس کا راستہ روکنے کیلئے دوسرے کے کان بھرنے کی صورت میں کی جاتی ہے جبکہ غیبت اپنے حسد کو ٹھنڈا کرنےکیلئے دوسرے کی برائیاں بیان کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔ یہ بیماری بھی جھوٹ کی طرح ہے اور اللہ نے اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے لیکن اس سے متعلق ہماری حساسیت بالکل ختم ہوگئی ہے ۔

صرف دوسروں کی اصلاح: دوسروں کی اصلاح اچھی چیز ہے لیکن اگر وہ صرف دوسروں کی اصلاح ہو اور اپنی نہ ہو تو عیب بن جاتاہے ۔ اپنے گھر میں اسلام نافذ نہیں لیکن میں ملک میں اسلام نافذ کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستانی واحد قوم ہیں کہ اس کے مصلحین کی توجہ دوسروں کی اصلاح پر ہے لیکن اپنے عیوب کی اصلاح نہیں کی جاتی ۔

بددیانتی: بددیانتی لین دین میں دھوکہ دینے کا نام ہے ۔ سرکاری لین دین ہو یا نجی اس میں ایک دوسرے پر اعتبار کرنا مشکل ہوگیا ہے اور لوگ غلط طریقے اور دھوکے سے کمائی کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔

افتراق: افتراق کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوچ ایک نہیں ہے ۔ قتل جیسے واقعات کے بارے میں بھی لوگ مختلف آرا رکھتے ہیں ۔ ہم مذہبی تفرقے میں اتنے آگے چلے گئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا مشکل ہوگیا ہے ۔ ہم ایک قوم اور ملت کی طرح کا رویہ نہیں رکھتے ۔حالانکہ سورہ الحجرات کی ساری تلقینیں افتراق کو روکنے کے لئے ہیں۔

اصلاح کی کمی: پاکستان میں جو اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں وہ نظام کی اصلاح کرنا چاہتی ہیں فرد کی اصلاح نہیں کررہیں ۔جو لوگ فرد کی اصلاح کرتے ہیں ان کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کہ یہ دین کو انفرادی مسئلہ بنانا چاہتا ہے ۔(جاری ہے)

تازہ ترین