• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں انہی کالموں میں بار بار گزارش کر رہا ہوں کہ خارجہ پالیسی کو معیشت سے منسلک کرکے ہی فی زمانہ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح اس کامیابی کے تسلسل کیلئے از حد ضروری ہے کہ تعلیمی میدان کو بھی اس کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور تعلیمی شعبہ میں باقاعدہ طور پر عالمی اور مقامی ضروریات کا تعین کرکے اہداف کو مقرر کر دیا جائے کہ کس تعلیمی شعبے کو کتنی ترقی دی جائے ، اس میں کتنے ڈگری ہولڈرز پیدا کئے جائیں تا کہ کوئی بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیروز گارنہ رہے بلکہ وہ قومی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہو۔مگر یہ سب کیسے کیا جائے ، اس ہدف کو کیسےممکن الحصول بنایا جا سکتا ہے تو سب سے پہلے نظریں یونیورسٹیز کی طرف اٹھتی ہیں اور صرف سرکاری یونیورسٹیاں ہی نہیں بلکہ نجی شعبے میں قائم ہونیوالی یونیورسٹیاں بھی اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کیا کردار ادا کر رہی ہیں اس کو جانچنا بہت ضروری ہے ۔ یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوتا ہے کہ نجی شعبے میں یونیورسٹیوں کی اچھی خاصی تعداد ہونے کے باوجود ان کی جانب سے کوئی قابل ذکر تحقیقی کام سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ وہ جتنی بھاری بھرکم فیسیں وصول کرتی ہیں اس کے بعد ان کے پاس تحقیقی کام نہ کرنے کا کوئی عذر باقی نہیں رہتا مگر بد قسمتی سے اس حوالے سے کوئی قابل ذکر کام تو کیاسامنے آتا عام نوعیت کی تحقیق بھی نظر نہیں آتی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ تصور مضبوط ہو رہا ہے کہ نجی یونیورسٹیاں ایک باقاعدہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اپنے اثر و نفوذ استعمال میں لاتے ہوئے سرکاری یونیورسٹیاں کو بھی پنپنے نہیں دے رہیں اور ایک بات تو روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ سرکاری یونیورسٹیاں سرکاری توجہ سے یکسر تہی ہیں حالانکہ سرکاری یونیورسٹیاں نجی شعبے کی یونیورسٹیوں کے بر خلاف امیر غریب سب کو تعلیمی سہولتیں فراہم کررہی ہیں مگر اس عدم توجہ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تیس سے زائد یونیورسٹیاں تو مستقل وائس چانسلر سےہی دو سے زیادہ برسوں سے محروم ہیں اور ہنوز یہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ۔ پنجاب یونیورسٹی صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ بر صغیر کی قدیم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے ۔ اس کا ماضی بڑا تابناک ہے مگر اس کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ اگر موجودہ عارضی وائس چانسلر صاحبان کو ہی ان مناصب پر برقرار رکھا جانا مقصود ہے تو ان کو ہی مستقل کر دیا جائے مگر ایڈ ہاک پالیسی کے راستے کو ضرور ترک کر دیا جائے ۔یونیورسٹیوں کے مسائل مالی معاملات سے زیادہ مؤثر حکمت عملی کی عدم موجودگی کے سبب بہتر نہیں ہو پا رہے ورنہ ان کو درست کرنا کوئی جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف یونین کے صدر ڈاکٹر امجد مگسی اس حوالے سے بہت مفید اور قابل عمل تجاویز رکھتے ہیں ویسے بھی وہ صرف پڑھے لکھے آدمی ہی نہیں بلکہ حالات حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ۔ جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے نواز شریف کی سیاست پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا تھا۔ جب ڈاکٹر امجد مگسی اس موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کر رہے تھے تو مجھ سے پروفیسر ڈاکٹر مسرت عابد نے ان دنوں رابطہ کیا اور بتایا کہ جو پی ایم ایل این کے افراد ماضی میں نواز شریف حکومت کا حصہ بھی رہے وہ بھی اتنے خوفزدہ ہیں کہ اس موضوع پر امجد مگسی سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں ، کیا آپ بات کریں گے ، میں بصد خوشی تیار ہو گیا۔یہ ڈاکٹر امجد مگسی کا تعارف دینے کا مقصد یہ ہے کہ واضح ہو کہ موجودہ حکمراں جماعت کی سیاست اورتعلیمی حکمت عملی سے بھی وہ اچھی طرح سے آگاہ ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب ان سے ملاقات کر کے یونیورسٹی اساتذہ اور یونیورسٹی کے مسائل کے حل کیلئے تجاویز لیں تو اس مسئلہ سے با آسانی نجات مل سکتی ہے ۔ اسی طرح سے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹی اسٹاف ایسوسی ایشن اور بلوچستان یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ بھی بہت عرصے سے بلوچستان یونیورسٹی کی تنخواہوں اور پنشنرز کی ادائیگیوںکیلئے بہت متحرک ہیں اور یہ متحرک ہونے کی بنیاد بہت مضبوط ہے کیوں کہ گزشتہ چار ماہ سے بلوچستان یونیورسٹی میں تنخواہیں ہی ادا نہیں کی گئیں اور اگر معاشی سکون ہی استاد کی زندگی سے مفقود ہوگا تو اس کیلئے تعلیمی معیار کو بلند کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر کریم الله بڑیچ بالکل درست فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ معاشی معاملات میں ہی مطمئن نہیں ہونگے تو ان سے اعلیٰ سطح کی تعلیم دینے کی توقع کس برتے پر کی جا سکتی ہے ۔ وہ حکام کی توجہ ان مسائل پر مبذول کرانے کی غرض سے علامتی طور پر کشکول مہم تک چلا چکے ہیں اور اس برس بھی وہ بلوچستان یونیورسٹی کے صدر دروازہ کے سامنے تنخواہوں اور پنشنروں کے مسائل کو حل کروانے کی غرض سے ایک کیمپ لگاکر بیٹھے رہے ۔ بلوچستان کی حساس صورت حال کے پیش نظر تو اول وقت میں اس مسئلہ کو حل کرنا ترجیح ہونی چاہئے مگر ایسی ترجیح کب حاصل ہوگی اور ہوگی بھی کہ نہیں کوئی نہیں جانتا ۔

تازہ ترین