سوال: میں عید کے بعد چھ روزے رکھتا آرہا ہوں، اب کسی نے بتایا کہ ان روزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیا یہ بات درست ہے، اب میں یہ روزے رکھوں یا چھوڑدوں؟
سوال: شوال کے چھ روزوں کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟
جواب: شوال کے چھ روزے رکھنا سنت ہے، حدیث کی مستند کتابوں میں اس کی فضیلت و اہمیت وارد ہوئی ہے۔
مسلم شریف میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے پورےسال کے روزے رکھے،‘ یعنی ان دونوں قسم کے روزوں کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔
اس حدیث کو قرآن کریم کے بیان کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو مطلب سمجھ میں آجاتا ہے۔
قرآن کریم کے وعدے کے مطابق ایک نیکی کا اجر کم از کم دس گنا ملتا ہے، اس حساب سے رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہوئے اور شوال کے چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہوئے اور کل ملا کر بارہ مہینے ہو گئے، یا یوں کہہ لیں کہ رمضان اور شوال کے چھتیس روزے ہوئے اور چھتیس کو دس گنا بڑھانے سے تین سو ساٹھ روزے ہوئے اور قمری سال لگ بھگ اتنے ہی دنوں کا ہوتا ہے۔
اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والا گویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے، انسان رمضان کے بعد تھوڑی مزید ہمت سے کام لے تو پورے سال کے روزوں کا اجروثواب سمیٹ سکتا ہےاور اگر کوئی یہ مستقل معمول بنالے کہ رمضان المبارک کے بعد شوال کے روزے رکھنے کا اہتمام کرے تو وہ صائم الدھر یعنی پوری زندگی روزے رکھنے والا شمار ہوگا۔
حق تعالیٰ شانہ کی خصوصی عنایت ہے کہ کم پربھی زیادہ نوازتے ہیں، رمضان کی طرح یہ موقع بھی سال میں صرف ایک بار آتا ہے، اس لیے اسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔
شوال کا پہلا دن یعنی عید کا دن چھوڑ کر پورے مہینے میں جس طرح آسانی اور سہولت ہو، یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں، مسلسل اور لگاتار چھ روزے رکھنا ضروری نہیں ہے بلکہ بیچ میں وقفہ اور ناغہ بھی کرسکتے ہیں۔
ان نفلی روزوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ فرض روزوں میں اگر کوئی کمی یا کوتاہی ہو جائے تو ان سے ان کی تلافی ہو جائے گی۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو ان روزوں کو رمضان کے روزوں کے ساتھ وہی نسبت ہے جو سنتوں اور نفلوں کو فرض نمازکے ساتھ ہے۔