مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
جب اپنا کوئی بہت پیارا دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو اُس وقت احساس ہوتا ہے کہ موت دراصل کیا ہے۔ ہماری دادی جان ہمارے لیے ایسی ہی ہستی تھیں کہ جن سے متعلق ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ہمیں ایک روز یوں اچانک چھوڑ جائیں گی۔ ہم سب اپنی دادی کو ’’امّی‘‘ کہتے تھے۔ وہ انتہائی نیک اور خوددار خاتون تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ اُن کی میّت اُسی پلاٹ میں رکھی گئی تھی، جہاں میں اکثر جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھ کر ’’سبحان اللہ‘‘ کا ورد ہی کرتی رہتی تھی، لیکن اس وقت وہاں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی، ہر چیز ویران لگ رہی تھی۔
غم کی اس گھڑی میں روتے ہوئے لوگوں کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ میّت کے سرہانے بیٹھ کر مَیں سوچ رہی تھی کہ میری ’’امّی‘‘ اللہ کے حضور تو پیش ہوگئیں، لیکن اب اُن کے حصّے کے کام، اُن کے انداز میں کون کرے گا؟ گھر کا سارا حساب کتاب اُن کے پاس ہوتا تھا، وہ قلیل رقم سے نہ صرف تمام معاملات بخوبی چلاتیں، بلکہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے الگ سے رقم بھی پس انداز کرلیتی تھیں۔
ہر ایک کے دُکھ درد میں کام آتیں، وہ اگرچہ پڑھی لکھی نہیں تھیں، لیکن خود پر تعلیم کے دروازے کبھی بند نہیں کیے، باقاعدگی سے میلاد کی محافل منعقد کرواتیں، اخبار پڑھنے سے قاصر تھیں، مگر دوسروں سے پڑھوا کر سُنا کرتیں۔ خصوصاً جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ میں سرچشمۂ ہدایت کے صفحے پر شایع ہونے والے مضامین بہت ذوق و شوق اور اہتمام سے سُنا کرتیں۔
اکثر مجھ سے کہا کرتیں ’’آ، اے رسالہ ویکھ ذرا، ایدھے وچ منیاں اچھیاں گلاں لکھیاں نیں، فیر مینوں وی پڑھ کے سُنا۔‘‘ (آئو، یہ رسالہ دیکھو ذرا، اس میں کتنی اچھی باتیں لکھی ہیں، اور پھر مجھے بھی پڑھ کے سُنائو) اُس کے بعد مجھ سے پورا مضمون سُنا کرتیں۔ رشتے داروں میں کوئی بیمار پڑتا، تو خاص طور پر تیمارداری کے لیے جاتیں، اُن کی حوصلہ افزائی کرتیں۔
صوم و صلوٰۃ کی سخت پابند تھیں، اذان ہوتے ہی نماز کے لیے اٹھ جاتیں۔ ہم نے کبھی انھیں فارغ بیٹھے نہیں دیکھا۔ وہ ساری زندگی تن دہی سے کام کرتی رہیں اور پھر یوں ہی اچانک چلی گئیں۔
بے شک، دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک روز اپنے ربّ کے حضور پیش ہونا ہے، دنیا کا نظام اور وقت یوں ہی چلتے رہیں گے، لیکن جن کی محبّت ہماری روح میں سمائی ہو، اُن کی جدائی سے پیدا ہونے والا خلا کوئی پُر نہیں کرسکتا۔ جانے والے کی بے لوث محبت اور باتیں، یادیں باقی رہ ہی جاتی ہیں، جو بیتے لمحوں کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ میری ’’امّی‘‘ کی مغفرت فرماکر انھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،آمین۔ (منتہیٰ ریاض، گوجرہ)