مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ واقعہ میری بہن کی ساس نے سُنایا تھا، ان ہی کی زبانی پیشِ خدمت ہے۔ ’’ہم ٹنڈو محمد خان میں رہا کرتے تھے، وہاں ہمارا بہت وسیع گھرتھا، صحن بھی کافی کشادہ تھا، جہاں بہت سی بلّیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ میرے بڑے بھائی روزانہ دوپہر میں باقاعدگی سے اُنھیں گوشت، چھیچھڑے وغیرہ لاکر کھلایا کرتے تھے، اس لیے دوپہر کے وقت بہت سی بلّیاں وہاں منڈلاتی رہتی تھیں۔ ایک دن بھائی اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے بروقت گوشت کی دکان پر نہیں جاسکے۔
دیر سے پہنچے، تو گوشت ختم ہوچکا تھا۔ قصاب نے بھائی سے کہا کہ ’’گوشت ختم ہوچکا ہے، اب شام ہی کو ملے گا، توشام کو آنا۔‘‘ بھائی خالی ہاتھ گھر آگئے۔ بلّیوں نے اُنھیں آتے دیکھا، تو حسبِ معمول اُن کے اِردگرد منڈلانے لگیں۔ بھائی نے بلّیوں کی طرف ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھا اور جس طرح قصاب نے کہا تھا، انھوں نے بھی بلّیوں کو مخاطب کرکے اُسی طرح کہہ دیا کہ ’’گوشت شام کو ملے گا، شام کو آنا۔‘‘ اور یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
عین مغرب کے وقت گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ والدہ نے اندر سے پوچھا، کون ہے؟ تو دروازے پر کھڑے اجنبی شخص نے کہا ’’گوشت دے دیں۔‘‘ والدہ نے تعجّب سے پوچھا، ’’گوشت؟ کون سا گوشت؟‘‘ تو اس شخص نے کہا کہ ’’بھائی نے کہا تھا کہ گوشت شام کو ملے گا، شام کو آنا۔‘‘ والدہ نے تجسّس کے عالم میں دروازے کی آڑ سے دیکھا، تو ایک غیر معمولی لمبے قد کا آدمی کھڑا نظر آیا، جسے دیکھ کر وہ سخت ڈرگئیں۔
انہوں نے گھر والوں سے پوچھا کہ کسی نے گوشت دینے کا کہا تھا؟ سب نے لاعلمی کا اظہار کیا، پھر بڑے بھائی نے سنا تو کہنے لگے کہ وہ تو مَیں نے دوپہر میں بلّیوں سے یوں ہی کہہ دیا تھا کہ ’’گوشت شام کو ملے گا، شام کو آنا۔‘‘ یہ سنتے ہی ہم سب گھر والوں کے تو پسینے چھوٹ گئے۔ بھائی تیزی سے دروازے کی طرف بھاگے، تو وہ آدمی غائب ہوچکا تھا، دُور دُور تک اُس کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔
اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اُس دن کے بعد سے صحن سے بلّیاں بھی غیرمعمولی حد تک کم ہوگئی ہیں۔ اب اللہ جانے، ان بلّیوں میں سے کون سی واقعی بلّی تھی اور کون سی بلّی کی شکل میں کوئی اور مخلوق.....؟؟‘‘ (کوثر جمیل، گلبرک ٹائون، کراچی)