مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے والد سیّد علی اشرف کا تعلق حیدر آباد دکن کے ایک اہم علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ اُن کی والدہ کے دادا، سیّد شاہ ابراہیمی، حیدرآباد دکن کے مشہور عالم اور شاعر تھے، جنھیں علمی و ادبی خدمات کے سبب، ’’لسان القوم‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا، جب کہ اُن کے والد، یعنی میرے دادا حکیم میرمحبوب علی حاذق طبیب تھے۔ حیدر آباد دکن کی چند اہم نام وَر شخصیات اس دور میں پھیلنے والی ایک موذی بیماری کا شکار ہوئیں، تو انھوں نے ان کا شافی علاج کیا۔
جس کے صلے میں انہیں باغات، قطعہ اراضی اورقیمتی تحائف عطا کیے گئے۔ میرے والد سیّد علی اشرف نہایت قابل اور وضع دار شخصیت کے مالک تھے۔ صحافتی اور ادبی حلقوں میں اُن کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ وہ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی۔ انھوں نے 1938ہء میں حیدر آباد سے ایک سہ روزہ اخبار ’’تنظیم‘‘ کا اجراء کیا، جو خبروں کے انتخاب، اُن کی ترتیب، اداریوں اور اہم معیاری مضامین کی وجہ سے پڑھے لکھے طبقے میں بہت مقبول تھا۔
والد صاحب کواسپورٹس خصوصاً کرکٹ اور فٹ بال سے بھی خصوصی دل چسپی تھی اور وہ ان کھیلوں سے متعلق وسیع معلومات رکھتے تھے۔ اپنے ہم عصروں میں خداداد صلاحیتوں اور غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے خاصے ممیّز تھے۔ ویسے بے حد سنجیدہ اور کم آمیز تھے۔
بس، چند مخصوص دوستوں سے کھل کر ملتے اور اُن کے ساتھ کافی وقت گزارتے۔ اُن کا شمار حیدرآباد دکن کے معروف شعراء میں ہوتا تھا اور ان کا ایک شعری مجموعہ ’’نقشِ امروز‘‘ 1945ء میں شائع ہوا، جس کا پیش لفظ، جوش ملیح آبادی اور مقدمہ، قاضی عبدالغفار نے تحریر کیا۔
میرے والد ابھی تصنیف و تالیف ہی میں مصروف تھے کہ28؍جولائی 1956ء کی شب اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرما کر جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (ڈاکٹر سیّد داؤد اشرف،کراچی)