• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ہر پانچواں بچہ پیدا ہوتے ہی فوت ہو جاتا ہے یا اس کی زندگی ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر دوسرے معاشرتی اشاریئے لئے جائیں تو پاکستان دنیا کے ان پسماندہ ترین ملکوں کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے جن میں زندگی کی قدر و قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ المناک صورت حال پاکستان میں مخصوص معاشی نظام کی پیداکردہ ہے۔اس پہلو سے دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف انتہا پسند ہی انسانی جانوں کے دشمن نہیں بلکہ معاشی اور سماجی دہشت گرد بھی ہیں جن کی وجہ سے پاکستانیوں کی میعاد و معیار زندگی پست ترین سطح پر ہے۔ پاکستان میں امیر امیر تر ہوئے ہیں اور غریب غریب تر۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں نے دو دہائیوں سے تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن یہ عجیب و غریب بات ہے کہ اس کا پاکستان کے صاحب ثروت طبقوں پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوا بلکہ اس کے الٹ جس زمانے میں دہشت گردی بڑھی ہے اسی زمانے میں ہی غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی ہے۔ اس تناظر میں لگتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی امیر طبقے کے لئے ممدومعاون ثابت ہوئی ہے۔ اگر انتہا پسندوں نے امیر طبقے کو براہ راست فائدہ نہیں پہنچایا تو یہ ضرورہے کہ اس نے پاکستانیوں کی توجہ بنیادی معاشی مسائل سے ہٹانے میں کردار ضرور ادا کیا ہے۔ پورا دانشور طبقہ بنیاد پرستی، انتہا پسندی، فرقہ واریت کی گتھیاں سلجھانے میں لگا ہوا ہے اور کسی کو وہ معاشی دہشت گردی نظر نہیں آتی جو پاکستان کے حکمران طبقے دن رات کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں اس نظریاتی کنفیوژن میں گڑی ہوئی ہیں جس کا آغاز پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی نمایاں ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اسی طرح سے پاکستان کی معاشی پسماندگی کی بنیادیں بھی اس کی تعمیر میں ہی مضمر تھیں (تیری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی)۔ پاکستان کی تاریخ میں زیادہ تر حکمرانی جاگیردار طبقے کی رہی ہے۔ دارالحکومت میں فوج کا راج ہو یا جمہوریت قائم ہو عوامی سطح پر جاگیردار ہی سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ پاکستان میں کبھی بھی موثر زرعی اصلاحات نہیں ہوئیں جس کا نتیجہ ہے کہ پورے کا پورا کلچر جاگیردارانہ حد بندیوں کا مقید رہا ہے۔آج دنیا میں وہی ملک تیز تر ترقی کر رہے ہیں جن میں جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ جاپان اور جنوبی کوریا میں امریکیوں نے زرعی اصلاحات نافذ کرکے پرانے جاگیردار طبقے کا خاتمہ کر دیا، چین میں مائؤزے تنگ کی سربراہی میں کمیونسٹ پارٹی نے نہ صرف مکمل زرعی اصلاحات کیں بلکہ ثقافتی انقلاب کے نام پر اپنے ملک سے جاگیرداری کلچر کی باقیات کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی پہلے چند سالوں میں زرعی اصلاحات نافذ کر دی گئیں۔ جرمنی میں بھی دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ساتھ ساتھ جاگیردار طبقے کا خاتمہ ہو گیا۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ آخر کار تیز تر ترقی انہی ملکوں نے کی ہے جن میں جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا۔
اب پاکستان میں جاگیرداری کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ پشت در پشت زمین تقسیم ہو کر بہت چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اور زرعی اصلاحات بے معنی ہوں گی۔ اگر بڑا جاگیردار واقعی ختم ہو چکا ہے تو پھر تو زرعی اصلاحات کو بے ضرر ہونا چاہئے لیکن ایسا ہے نہیں اور جاگیرداری نظام اب بھی پاکستان کے بہت سے حصوں میں قائم و دائم ہے اسی لئے آج بھی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جاگیرداری محض ایک معاشی نظام نہیں جس سے کسانوں کا خون نچوڑا جاتا ہے بلکہ یہ سیاسی اور سماجی حقیقت بھی ہے، یہ مخصوص طرز حیات اور رویوں میں منعکس ہوتی ہے۔بنیادی طور پر جاگیردارانہ فکر محدود اور تنگ نظر ہوتی ہے۔ عام جاگیردار کی سوچ اپنے مختصر سے علاقے پر اپنے متشدد راج کو قائم رکھنے تک محدود ہوتی ہے۔ وہ ملک اور قوم کے مفادات کے بارے میں لا تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو عملی طور پر حکمرانی محدود فکر کے جاگیرداروں کے ہاتھ میں آگئی۔ یہ جاگیردار مسلم لیگ میں شامل بھی اسی لئے ہوئے تھے کہ ان کو آل انڈیا کانگریس پارٹی کی زرعی اصلاحات کا خوف تھا۔اسی خوف کے تحت یہ مشرقی پاکستان کے درمیانے طبقے کے ہاتھ میں اقتدار دینے سے خائف تھے حالانکہ مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے اکثریتی صوبہ تھا ۔مشرقی پاکستان میں مسلمان جاگیردار نہ ہونے کے برابر تھے اور اسی لئے وہاں کی سیاسی پارٹیاں زرعی اصلاحات کے بارے میں بہت سنجیدہ تھیں۔انہی کے خوف سے انیس سو اٹھاون میں جنرل ایوب خان نے مارشل لانافذ کیا تھا کیونکہ انیس سو انسٹھ میں الیکشن ہونے والے تھے جن میں مشرقی پاکستان کا جگتو فرنٹ کامیاب ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔ انیس سو اکہتر تک کے متحدہ پاکستان میں جاگیرداروں اور ان کے حامی اداروں کا مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے ساتھ بنیادی تضاد تھا،یہی تضادبہت سی تبدیلیوں کا بڑا محرک تھا اور غالباً اسی بنا پر ملک دو لخت ہوا۔پاکستان کی ریاست کا ماڈل ہی ایک جاگیر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ پاکستانی فوج میں تو زمینیں آج تک تقسیم ہوتی آئی ہیں اس لئے اس ادارے کا جاگیرداری کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ نوکر شاہی بھی مراعات یافتہ ہونے کی وجہ سے جاگیرداروں کی ہم پیالہ ہو گئی۔ پچھلی تین دہائیوں سے کاروباری اور تاجر طبقہ بھی پاکستان کی جاگیر میں حصہ دار بن چکا ہے۔ پاکستان کا صنعت کار بھی منڈی میں مقابلے کے بجائے جاگیر پاکستان کے کندھوں پر سوار ہوکر منافع خوری کرتا ہے۔ اس کا ثبوت وہ ہزاروں ایس آر اوز ہیں جن کے ذریعے مختلف صنعتوں کو مراعات دی گئیں اور دی جا رہی ہیں۔ اس جاگیر پاکستان میں پلاٹ،پرمٹ اور پروٹوکول کاراج ہے۔ حال یہ ہے کہ چالیس فیصد پولیس وی آئی پیز کے پروٹوکول اور تحفظ کے لئے مختص ہے۔
جاگیر پاکستان سے ہر رعایت حاصل کرنے والے ٹیکسوں سے آزاد ہیں اور یہ ذمہ داری بھی غریب عوام کے کندھوں پر ہے ۔ وہ باالواسطہ ٹیکسوں سے اس ریاست کو چلاتے ہیں جس سے انہیں زیادہ کچھ نہیں ملتا۔ امیروں کی دولت اور ان کا حجم بڑھتا گیا ہےلیکن ریاست بے لباس ہوتی چلی گئی ہے۔یہ ریاست عوام کو تعلیم، صحت اور دوسری ہر سہولت دینے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر پانچ میں سے ایک بچہ ایک دن کی زندگی بھی لیکر پیدا نہیں ہوتا۔ یہ معاشی دہشت گردی نہیں تو پھر کیا ہے؟مانا کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پاکستانی معاشرے کا ناسور ہیں لیکن ’’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے‘‘۔
تازہ ترین