قارئین کرام ! ’’آئین نو‘‘ میں جاری عشرے کے ٹاپ ملکی پالیسی و فیصلہ سازوں ،بڑے بابوئوں اور رائے عامہ پر مستقلاً اثرانداز ہوتے پوٹینشل شہریوں کو گھمبیر کثیر الجہت قومی بحران سے نکلنے کی واضح ہوتی راہ دکھانے اور سمجھانے کی اپنی سی کوشش جاری ہے۔اس حوالے سے 16تا 30مارچ ’’آئین نو‘‘ کی پانچ اقساط بعنوان ’’ڈسٹربڈ پیرا ڈائم شفٹ اور پاکستان‘‘ شائع ہو چکی ہیں ۔اس برپا اور ساتھ ساتھ ڈسٹرب ہوتے عالمی تغیر کا بڑا امتیازتاریخ بن گئے پیرا ڈائم شفٹ (جیسے جنگ ہائے عظیم، نوآبادیاتی نظام، مسلم سلطنتوں اور امریکہ کی آبادکاری کے ادوار وغیرہ ) کے مقابل سات ایٹمی طاقتوں سے لیکر چھوٹے چھوٹے غریب و کنگال ممالک بڑے الرٹ ہوتے اپنے قومی مفادات کی مکمل نشاندہی ، اپنی پوزیشن بناتے اور پالیسی ساز کے عمل سے گزر کر اپنی موجود ، امکانی اور مستقل نوعیت کے اہداف کی نشاندہی بڑی تیزی سے اپنے عوام اور دنیا پر کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ عنقریب اسلحے کی طاقت کے مقابل عالمی رائے عامہ پیرا ڈائم شفٹ کے عمل کو مرضی سے ڈھالنے کی قوتوں کے مقابل اپنا زورواثر دکھانے کو ہے۔ غور فرمائیں بڑے وار زون بنائے گئے مڈل ایسٹ میں جبوتی میں فوجی اڈے قائم کرنے سے گریزاں چین، بحرہ احمر میں فوجی اڈہ بھی بنا چکا ہے یہی نہیں پہلی مرتبہ چین ہی متنازع تائیوان پر اپنے مستقلاً لیکن خاموش دعوے میں تبدیلی کرکے اپنے ساحلوں کے قریب سائوتھ چائینہ سی جیسے اشتعال انگیز ایشو کی تخلیق پر ’’خاموش دعوے‘‘ میں ’’تائیوان ہمارا‘‘ کی واضح اپوزیشن دنیا کو بتاتے جتاتے اپنے نئے قائم عسکری عزائم کا عملی مظاہرہ کرنے لگا ۔جاری پیرا ڈ ائم شفٹ کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ کس طرح سائوتھ چائینہ سی ایشو کی اشتعال انگیز تخلیق اصلاً امریکہ کی چین کے ہاتھوں جمہوریت کےساتھ ساتھ امریکی نظریاتی بنیاد کے ایک اور بڑے ستون فری انٹرپرائز (آزادانہ تجارت و معیشت) کے میدان میں واضح شکست سے ہوئی ۔ اس سے قبل پوسٹ کولڈ وار پہلے عشرے میں امریکی ڈیپ اسٹیٹ، ایمپاورڈ ہوتی مقابل طاقتوں اور ترقی پذیر ممالک کی بتدریج اور کہیں تیزی سے بڑھتی سیاسی و اقتصادی خودمختاری کے باعث اپنا گھڑا پیرا ڈائم ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ دنیا پر مسلط کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی (یہاں 2011کی آکیوپائے وال سٹریٹ موومنٹ کو یاد رکھا جائے) اس کے متوازی امریکی انٹی لیکچوئیل فرنٹ کا ایک سیکشن ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ کو ’’تہذیبوں کا تصادم ‘‘ (کلیش آف سویلائز یشن ) کا نظریہ عالمی امن و استحکام سے متصادم اسلاموفوبیا اور اسلامی بنیاد پرستی کے شرانگیز شوشے پیدا کرنے سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا کہ عالمی معاشرے پر عالمی اولیگارکی (مافیا راج) کی حقیقت کا پردہ چاک ہونا شروع ہوا جو بذات خود ظہور پذیر بڑے عالمی سیاسی تغیر (پیرا ڈائم شفٹ) کا ہی ایک دھارا ہے ۔
امریکی اینگلو روایتی سیاسی و نظریاتی بلاک، امریکہ و مغرب کی اولیگارکی کی اصلیت کو سمجھتے عوام سمیت پورے عالمی معاشرے نے ذہناًعالمی امن و استحکام و عوامی خوشحال کے مقابل جنگ، اسلحہ، تنازع، تہذیبی تصادم، مذہبی تعصب اور سیاسی حربوں سے اقتصادی بالادستی کے ایجنڈےکو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔تبھی تو عراق پر بے جواز امریکی حملے کے خلاف اور اب عالمی امن کیلئے سخت خطرہ بن گئی۔ فلسطین مخالف مسلسل اسرائیلی جارحیت و بربریت پر اپنی حکومت کے خلاف امریکی یورپی، صدر مقامات اور بڑے شہروں میں لاکھوں کے احتجاجی اور مذمتی مظاہروں نے عالمی رائے عامہ کے اس بند کی تعمیر شروع کر دی ہے جو سوشل میڈیا کے زور سے ’’احترام آدمیت و انسانیت پر عالمی اتفاق و اتحاد‘‘ کے ایجنڈے پر کاربند ہے یہ ہی وہ نیا پیرا ڈائم شفٹ ہے جس کے خلاف عالمی امریکن اینگلو اولیگارکی اسرائیل بھارت اور بے بس اتحادیوں کے ہمرکاب ہو کر اپنا ہی تراشا پیراڈائم مسلط کرنے پر تلی ہوئی ہے جس نے تیسری جنگ عظیم کے امکانات ،کولڈوار ختم ہونے کے فقط اڑھائی عشرے بعد ہی پیدا کردیئے۔سی پیک کے آغاز سے دوستانہ سرحدوں کے ذریعے آزاد و آسان تجارت کے عالمی دھارے سے اولیگارکی کے مقابل عوامی امن و خوشحالی اور ملکی استحکام و خودمختاری کے ایجنڈے کے عمل میں ڈھلنے سے جو پیرا ڈائم شفٹ تشکیل ہونا شروع ہوا تھا وہ دو امریکی انتظامیہ کی لی گئی پوزیشن سے بری طرح متاثر ہے، پہلے ایسے کہ امریکی صدارتی تاریخ کے پہلے سرمایہ دار و سرمایہ کار صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےچین کے ساتھ اقتصادی دوڑ میں اسے کسی اختراعی سکت سے پیچھے رکھنے کی بجائے امریکی تعمیرو ترقی کے شہرہ آفاق اور پریکٹس کیپٹل ازم آزاد معیشت مارکیٹ اکانومی کی بنیادی فلاسفی کو ترک کرکے چین کو عسکری طاقت و اتحاد کے زور سے محدود کرنے کی اختیار کی ان کا یہ زور انتخابی میدان میں بھی اتنا ہی قائم رہا اور امریکی مانی جانی جمہوری اقدار کو بٹہ لگا کر وہ ہارگئے ۔
اپنی انتخابی مہم میں صدر بائیڈن کے ’’بنیادی انسانی حقوق کی علمبرداری‘‘ کے تمام تر وعدے اور عزائم ، مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے ظلم وستم میں ڈھیر ہوگئے بلکہ یوکرین جنگ کا طوق انہوں نے اپنے گلے میں ڈال کر خود امریکہ اور یورپ کو پھنسا دیا، کھربوں ڈالر کا ان کا اختراعی امریکن اینگلو کا منصوبہ BW3خود اور یورپ سے یوکرین کا ناکام دفاع کراتے کراتے متعارف ہوتے ہی کافور ہو گیا جبکہ ٹرمپ چین سے نپٹنے میں ناکامی کے بعد جنگیں ختم کرنے کے بیانیے پر تو آگئے تھے لیکن اسرائیل کی ناجائز سرپرستی آئوٹ آف دی وے کی، اب بائیڈن انتظامیہ اس میں اپنی واضح اور ملک گیر رائے عامہ سے متصادم، اسرائیل کی فلسطینیوں کی کھلم کھلا نسل کشی کے مقابل ڈپلومیسی کے روایتی کور سے نیتن مجرم حکومت کی پذیرائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔اس حوالے سے شام میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کے علانیہ اور بے حد سفارتی نپے تلے اور ذمے دارانہ جوابی وار نے دنیا کو حیران اورپورے امریکی اینگلو بلاک کو چونکا دیا ہے اس جوابی وار کا تجزیہ بظاہر اسرائیل کا کیا بگڑا ؟کے جواب سے نہیں ہو گا۔ صدر بائیڈن کے اس واضح اعلان سےکیا جا رہا ہے کہ امریکہ ایران، اسرائیل جنگ میں براہ راست اسرائیل کا اتحادی نہیں بنے گا پھر ایرانی جوابی وار نے پہلے ہی خوفزدہ اسرائیل کو بڑے وار زون میں غرق کر دیا ہے اب وہ مشرق وسطیٰ کی تنہا غالب طاقت نہیں ۔امریکہ، برطانیہ اور بھارت کی کھلی اور عملی بھرپور معاونت کے باوجود پورے خطے میں ایسی جنگی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے جس سے امریکی اتحادی اور عوام کے مفادات کا بری طرح متاثر ہونا لازم ہے ایسے میں دنیا بھر کے امن پسندوں کا شدت سے مطلوبہ کردار یہ درکار ہے کہ امریکی و اسرائیلی اور بھارتی عوام کو عالمی رائے عامہ کی قوت سے اعتماد میں لیکر عالمی امن و استحکام اور بقا و تحفظ انسانیت کے لئے کام کیا جائے۔ وماعلینا الالبلاغ