اتنےدن سے میرے سامنے 20سالہ امجد صابری کھڑا ہے۔ 1996میں پی این سی اے نے بین الاقوامی موسیقی کانفرنس میں آخری شام قوالی کیلئے منسوب تھی۔ غلام فرید صابری اور ان کے بھائی نے قوالی کا سیشن شروع کرنا تھا، وہ بھی امیر خسرو سے۔ پروگرام شالیمار باغ میں رکھا تھا۔ ہزاروں لوگ تھے، یونیورسٹی کے بچوں کو کہیں جگہ نہیں ملی تو زمین پر بیٹھ گئے۔ کیا اچھے زمانے تھے۔ نہ کوئی بدتمیزی نہ فقرہ بازی، ممنون تھے لڑکے لڑکیاں کہ ان کو زمین پر ہی بیٹھنےکو جگہ مل گئی ہے۔
میں نے کام کے باوجود دیکھاکہ قوالوں کی نشست ختم ہونے کے بھی اس صف میں سے ایک نوجوان لڑکا، میرے دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ کام میں مدد کررہا تھا۔نشست رات دو بجے ختم ہوئی۔ میںنے پیار کیا اور اس نوجوان سے اس کا نام پوچھا تو صابری صاحب نے خوش ہوکر کہا ’’میرا بیٹا ہے، خود بھی اچھی قوالی کرلیتا ہے۔ جب گاڑی سے خون بہتا ہوا نکل رہا تھا، امجد جو اب چالیس سال کا تھا، وہ نوجوان پھر یاد آگیا، میرے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگا، آپ خوش ہونگی یہ دیکھ کر مجھے ساری دنیا کتنا پیار کرتی ہے۔ یہ دیکھیں میرا جنازہ۔
میں دم بخود ہوگئی۔ میں نے زندگی میں کبھی کوئی اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا تھا، میں حیران تھی کہ میلوں دور جو لوگ جنازے میں شامل تھے، وہ جانتے تھے کہ آگے نہیں جاسکیں گے،ان میں کیا طمانیت اور صبر تھا، کوئی بھی تو کسی کو کندھامارکر آگے نہیں بڑھنا چاہتا تھا، رمضان سب کا روزہ، جنازے کا کوئی گھنٹے کا سفر اور سامنے جو نوجوان تھے، ان میں سے کسی نے بھی سوائے آنسوئوں کے یا پھر یارسول اللہ کہنے کے، اپنی قطار توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے ساری سیاسی پارٹیوںکے رہنما اور ان کے ورکرز یاد آگئے، جنہیں ابھی تک نظم و ضبط کا کوئی سلیقہ نہیں آیا ہے، یا پھر ان میں سے کسی کے اندر ذوالفقار علی بھٹو کی روح نہیں سرایت کی ہے۔ کیا یہ ان کے رہنمائوں کی خرابی نہیں ہے کہ وہ خود تو لاڈ صاحب کی طرح صرف تقریر کرنے آجاتے ہیں اور پھر تقریر کرکے فوراً نکل جاتےہیں۔ لاکھ کہیں پروفیسر قادری کی جگہ صاف کرکے جانا، مگر صبح کو کارپوریشن کی گاڑیاں جیسے کوڑا اٹھارہی تھیں، وہ بتارہا تھا کہ ہمارے لوگ لیڈر کی کتنی بات مانتے ہیں۔
میرے ملک کے بچوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ کوئی تقریب گھر میں ہو تو لوگ ناچ گانا نہیں، قوالی کرایا کرتے تھے، ہمارے سارے بڑے زمین پر بیٹھ کر قوالیاں سنتے اور داد دیتے تھے۔ کوئی نہ ویلیں دیتا تھا اور نہ دھمال ڈالتا تھا۔ ایک فقرہ ہر ایک کے منہ سے نکلتا تھا، ’’سبحان اللہ‘‘ یہ روایت اس وقت تک چلی جب تک پاکستان میں علم والے لوگ قوالی سنا کرتے تھے۔ ملک پر حکومت کرتے اور عوام سے بات کرنے کا سلیقہ اور قرینہ جانتے تھے۔ زمانہ ایسا بدلا کہ پارلیمان میں 80 فیصد لوگ وہ آئے جن کو بولنا کیا، ادب و آداب کے علاوہ ان کی نیتوں میں بھی ایمان نہیں تھا۔علاوہ ازیں جس زبان میں امجد صابری یا فرید ایاز قول دہراتے تھے، اس زبان کو تو ہم نے دیس نکال دیا ہے۔ اس لئے چاہے علامہ اقبال کا آدھا کلام اور غالب کا فارسی کلام ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتا ۔ ہم چونکہ تماش بین قوم ہوچکے ہیں۔ جس دن سے امجد صابری کے ساتھ سفاکانہ زیادتی کی گئی سارے ملک کے سارے بابو ڈرے ہوئے ہیں۔ حالانکہ وہ اور تمام ٹیلی ویژن چینل پر انعام دینے والے، عجیب و غریب حکایتیں سنارہے ہیں، کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ اس کی بیوی کا کیا حال ہے، اس کو تو عدت میں بٹھادیا گیا ہوگا، باقی فیصلے گھر کے لوگ کررہے ہوں گے۔یہیں پر یہ مصرعہ یاد آتا ہے۔ سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی سی نادانی دے مولا، ارے یہ تو امجد نے سنایا تھا۔ کب جب ابھی چھوٹا تھا۔کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ 30 کروڑ، پی ٹی آئی، اس کی بیوی کے نام فکسڈ ڈپازٹ میں رکھوادیں تاکہ بچوں کو پڑھائی کرنے کے بعد قوالی کی طرف رجوع کرنے کا شوق ہو۔ یہ بات میں اسلئے کہہ رہی ہوں کہ جب میں ٹیلی ویژن پر اس کے بیٹے کو باپ کی نعتیں اور سلام دہراتے ہوئے سنتی ہوں، میرا دل اندیشوں سے بھر جاتا ہے۔ کہیں اس بچے کی تعلیم ادھوری نہ رہ جائے، اس کیلئے تو موسیقی کا استاد رکھا جائے اور دوسری جانب فارسی پڑھانے والا، کوئی بتائے کہ تم کو امیر خسرو کو کیسے گانا ہے۔ قرۃ العین طاہرہ کو کیسے گانا ہے اور غالب کے مصرعوں کو کیسے بیان کرنا ہے۔امجد کی طرح اس کے بیٹے نے بھی سرکی دنیا میں اور گود میںآنکھ کھولی ہے۔ اس کے بچپن کو کوئی اجاڑ نہ دے اور امجد کی بیوہ کہہ رہی ہے ’’شب جدائی کی تصویر اور کیا ہوگی‘‘۔
پہلے ہم نے نصرت فتح علی کو اپنے ہاتھ سے کھویا۔ راحت بھی تو سناٹے میںہے پھر شیرعلی مہر علی دنیا سے گئے۔ موسیقی میں بھی مہدی حسن اور نورجہاں کے بعد مہناز کے جانے سے ہماری سر کی دنیا برباد ہوگئی ہے۔ خدا سلامت رکھے فرید اور ایاز کو، کہ بس اب انہوں نے ہی قوالی کا تاج سنبھالا ہوا ہے۔مجھے امجد کے گھر والوں کے علاوہ تمام چینلز سے بھی یہ پوچھنا ہے کہ ہر چند امجد کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے، یہ سب چینلز جب وقت ملتا ہے، امجد کی گائیکی کو لگاکر زخم تازہ کرتے ہیں، مگر کیا اس کے خاندان کورائلٹی ادا کرتے ہیں۔ کوئی اور نہیں ابصار عالم، تم خود چیک کرو، لوگ سن لیں، زاہد نبی نے کیا لکھا ہے
موت سے یاد آیا دکھ مجھ سے پہلے پیدا ہوا تھا
سو زندگی سے بڑا ہے آسمان پورا نظر بھی آجائے تو میں چھوٹا ہوں
لیکن میرا حوصلہ دیکھ کر دیوار سے کھڑا نہیں ہوا جاتا
مجھ سے کہتی ہے آنکھیں موند لو
خواب زندہ آنکھ پر اور تعبیر مردہ بدن پر اترتی ہے
تمہاری گائیکی کی تعبیر تم خود …