• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت عالمی میڈیا یا سیاست میں اسرائیل ایران چپقلش یا آویزش پوری طرح چھائی ہوئی ہے جس کا آغاز فروری 1979ء میں خمینی انقلاب کے ساتھ ہی ہوگیا تھا کیونکہ ماقبل شاہ ایران کے دور میں عربوں کی اسرائیل کے خلاف جس قدر مخالفت تھی شاہ کی اسی قدر اسرائیل سے دوستی تھی ،یہ تعلقات سفارتی، تجارتی اور تہذیبی حوالوں سے بڑھ کر عسکری بھی تھے۔ پھر وقت ایسا بدلا کہ جس شرح سے عربوں کی اسرائیل کے خلاف دشمنی و منافرت ختم ہوتی چلی گئی اسی قدر ایرانی ولایت فقیہ کی مخاصمت بڑھتی چلی گئی جس کا عملی مظاہرہ وہ اپنی مضبوط پراکسیوں کے ذریعے کرتا چلا آرہا ہے۔

‎عالمی سیاست کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بڑے تنازع کے باوجود اسرائیل اور عرب دونوں امریکی کیمپ میں نہ صرف یہ کہ گردانے جاتے ہیں بلکہ فی الواقع موجود ہیں جبکہ امام خمینی کے اسلامی انقلاب کا روزِ اول سے بنیادی سلوگن ہی ”مرگ برامریکا“ کا بیانیہ رہا ہے جس کا آغاز انقلاب بپا ہوتے ہی امریکی سفارتکاروں کو یرغمال بناتے ہوئے کردیا گیا تھا ۔آیت اللہ خمینی کے عزائم تو یہ تھے کہ وہ اپنے اسلامی انقلاب کو دیگر مسلم و عرب ممالک میں بھی برآمد کریں گے اور انہوں نے اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں رکھا تھا مگر عراقی صدر صدام حسین کی قیادت میں عرب و عجم کی جو خوفناک طویل جنگ برپا ہوگئی جس میں ہر دو اطراف سے لاکھوں مسلمان لقمۂ اجل بن گئے ۔ان کڑوے یا زہریلے گھونٹوں نے ایرانی انقلابیوں کے عزائم خاک میں ملادیے۔‎امریکی اثر و رسوخ کی برکت سے جس طرح بشمول پی ایل او اسرائیل کے قریب ترین عرب ہمسائے جمہوریہ مصر اوراردن اسرائیل کو تسلیم کرچکے تھے اسی طرح مراکش، سوڈان ، بحرین اور متحدہ عرب امارات جیسے کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرلیے۔ اب سب سے اہم اقدام سعودی عرب کا تھا جس کی عرب اور مسلم ورلڈ میں قیادت و اہمیت سب پر واضح ہے، مڈل ایسٹ کی سیاست پر نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ ادراک کرسکتا ہے کہ یو اے ای سعودی مشاورت و معاونت کے بغیر اس حد تک نہیں جاسکتا تھا۔ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے خود تسلیم کیا کہ وہ کچھ شرائط کے ساتھ اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرنے جارہے تھے ،دہلی کی جی20 کانفرنس کے بعد انڈیا اور امارات کو ملاتے ہوئے ریاض سے براستہ اردن حیفہ کی اسرائیلی بندرگاہ تک زمینی کاریڈور کا پلان بھی طے پاچکا تھا عین اس مرحلے پر سب کچھ سبوتاژ کرنے کے لیے 7اکتوبر 2023ء کوحماس نے اسرائیل کے اندر گھس کر زمینی کے ساتھ راکٹوں اور میزائلوں کے ذریعے فضائی حملہ کردیا گیا جس سے 14سو کے قریب اسرائیلی شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور دو سو کے قریب یرغمال بنالیے گئے۔ اس کے ردِ عمل میں اسرائیل نے پوری غزہ کی پٹی بالخصوص رفاہ کا تورا بورا بناڈالا۔ اسرائیل نے جو ردِعمل دیا وہ اتنا شدید تھا کہ اسرائیل کے ہمدرد بھی اسے جواز فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اسرائیل کا یہ ردِ عمل یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارتخانے تک پہنچا جس میں سات ہلاکتیں ہوئیں۔ جس کے بدلے میں ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کا حالیہ حملہ ہوا ۔‎اس حملے کی مذمت اگرچہ بشمول امریکا و یورپ دنیا کے دیگر بہت سے ممالک بھی کررہے ہیں، اس حملے کی شدت سے کسی کو انکار نہیں لیکن اسرائیل کا جدید ترین ایروائیرئیل ڈیفنس لیزر یا آئرن ڈوم سسٹم بہت مضبوط ثابت ہوا جو اگرچہ مہنگا ضرور ہے اور بتایا جارہا ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا خرچہ اٹھا ہے لیکن امریکا اور یہود کے لیے یہ کوئی اتنی بھاری رقم بھی نہیں ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ تین سو ڈرونز اور میزائلوں سے بچاؤ میں امریکا اور کچھ یورپی ممالک نے اسرائیل کی معاونت نہیں کی۔

عرب اسلامی ملک اردن اور خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ شاہ عبداللہ دوئم نے بھی اسرائیل کو پورا دفاع و تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان میزائلوں کو مارگرایا ہے اور عرب ممالک میں سوائے شام کے کسی نے بھی اس ایرانی اقدام کی حمایت نہیں کی ہے۔ خود ایرانیوں نے بھی کہا ہے کہ معاملے کو یہیں پر ختم سمجھا جائے ایک لحاظ سے انہوں نے اشک شوئی یا فیس سیونگ کی ہے، اسی لیے انہوں نے بشمول امریکا عرب ہمسایوں کو بھی پیشگی اپنی کارروائی کی اطلاع دے دی تھی کیونکہ اس کا مقصد خود کو کسی جنگ میں جھونکنا نہیں تھا البتہ یہ دھمکی ضرور دی ہے کہ اگر دوبارہ ہم پر حملہ ہوا تو اس سے سخت جواب آئے گا۔ روسی صدر پیوٹن نے بھی کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں نئے تصادم کے اثرات تباہ کن ہونگے اس لیے فریقین برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو مشورہ دیا ہے کہ فی الوقت وہ کسی بھی جوابی کاروائی سے باز رہیں۔ اقوام متحدہ اور یورپین ممالک نے اگرچہ ایرانی حملے کی شدید مذمت کی ہے مگر کسی نے بھی جوابی کارروائی یا تصادم بڑھانے کی حمایت نہیں کی حتیٰ کہ اسرائیلی رائے عامہ بھی کسی بڑی جنگ یا کارروائی کی حمایت میں نہیں ہے۔ اس لیے اب بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا اسرائیل اس کا کوئی ردِعمل دکھائے گا اور ممکنہ ردِ عمل ایرانی جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین