• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
تصویر بشکریہ سوشل میڈیا

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کرتارپور راہداری، زیرو لائن اور پاک درشنی ڈیوڑھی کا دورہ کیا، مریم نواز نے سکھ برادری کو بیساکھی کے تہوار کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج مجھے اپنا گاؤں جاتی امرا امرتسر یاد آ گیا ہے۔

کھیتی صاحب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے سنہری درانتی سے گندم کے سنہرے خوشہ کاٹ کر بیساکھی کا باضابطہ آغاز کر دیا۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے بابا گرونانک کے کھیت میں کٹائی کا اعزاز حاصل کرکے مسرت کا اظہار  کیا۔

سکھوں کے گروپ لیڈر کا اس دوران کہنا تھا کہ پنجاب کی بیٹی کا وزیر اعلیٰ بننا ہم سب کا مان ہے۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے سکھ لنگر ہال میں یاتریوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھایا۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ابلے چالوں، کڑھی پکوڑے، مونگ کی دال، گڑ والے چاول اور روٹی اچار سے تواضع کی گئی۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز نے کھانے کے معیار کو سراہا۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کرتار پور میں خطاب:

وزیراعلیٰ مریم نواز نے خطاب میں کہا کہ سکھ یاتریوں کا آنا ہمارے لیے باعث عزت ہے، میری اور نواز شریف کی جانب سے بیساکھی کی مبارکباد، نواز شریف نے آپ کو پیار اور مبارک باد کا خصوصی پیغام دیا ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ 1999میں نواز شریف نے کرتارپور بارڈر کھولنے کی بات کی تھی، نواز شریف نے کہا کہ بھارتی سکھ برادری دوربین سے دربار کا درشن کرتی ہے، بھارتی جاتی امرا کی مٹی تحفے میں ملی تو دادا کی قبر پر رکھی، وزیراعلی بننے پر بھارت سے بھی مبارکباد کے پیغامات ملے تھے۔

مریم نواز نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے پاکستانی پنجابی بھی فخر سے پنجابی بولیں۔

شریف خاندان کا بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر سے کیا تعلق ہے؟

واضح رہے کہ بھارتی شہر امرتسر کے قریب واقع ایک گاؤں جاتی عمرا شریف خاندان کا آبائی گاؤں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس گاؤں کا واحد گرودوارہ شریف خاندان کے پشتینی (جدی پشتی گھر) مکان میں واقع ہے۔

اس گاؤں کے لوگ تقسیمِ ہند کے 76 سال بعد بھی شریف خاندان سے ایک خاص انسیت رکھتے ہیں، جاتی امرا کی دیواروں پر آج بھی شریف خاندان کے اہم کرداروں میاں محمد نواز اور شہباز شریف کی تصویریں آوایزاں ہیں۔

ایک غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق شریف خاندان نے خود اس گاؤں کے گرودوارے کو اپنی زمین پیش کی تھی۔

رپورٹس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کے والد تقسیم ہند سے پہلے ہی یہاں سے چلے گئے تھے لیکن انہوں نے تاحیات جاتی امرا سے ناتا نہیں توڑا تھا۔

سکھوں کا بیساکھی میلہ اب پاکستانی پنجاب کی بھی روایت بن گیا ہے:

واضح رہے کہ حسن ابدال کے گوردوارہ پنجہ صاحب میں بیساکھی میلے کے سلسلے میں رواں سال 3 روزہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔

سکھ برادری کا مذہبی تہوار ’بیساکھی‘ ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستانی پنجاب میں جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔

اس مذہبی تہوار پر دنیا بھر سے ہزاروں سکھ یاتری گوردوارہ پنجہ صاحب جمع ہوتے ہیں اور بیساکھی کے موقع پر مقدس رسم کے طور پر اپنا ہاتھ پنجے کے نشان پر رکھتے ہیں۔

اس میلے کو ’بیساکھی‘ کے علاوہ ’وساکھی‘ بھی کہا جاتا ہے جبکہ سکھ برادری اسے خالصہ بھی پکارتے ہیں۔

بیساکھی میلہ سکھوں کے شمسی سال کے آغاز میں منایا جاتا ہے۔

رواں سال 3 روزہ بیساکھی میلے میں شرکت کے لیے بھارت سے 2 ہزار 843 سکھ یاتری پاکستان پہنچے جنہوں نے اپنے مذہبی تہوار کے سلسلے میں منعقدہ تقریبات میں بھرپور شرکت کی۔

 پاکستان آنے والے سکھ یاتری یہاں 10 روز قیام کریں گے اور اس دوران مختلف مذہبی رسومات ادا کرنے ننکانہ صاحب، سچا سودا اور حسن ابدال جائیں گے۔

بیساکھی میلے کی تاریخ:

بیساکھی میلے کا اہتمام تقسیم پاک و ہند سے قبل گندم کی کٹائی کا آغاز پر کیا جاتا تھا جسے ماضی میں سب کسان مل کر مناتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد بتدریج یہ رسم یا میلہ سکھوں سے منسوب ہو کر رہ گیا ہے، سکھ نئے سال کے آغاز، یعنی یکم بیساکھ (13 اپریل) کو 319 ویں خالصہ جنم دن کے موقع پر اپنے گورو کے استھان، گوردوارہ پنجہ صاحب میں خاص مذہبی رسومات کی ادائیگی کرکے مناتے ہیں۔

ہر سال بیساکھی کے موقع پر کبھی تین تو کبھی چار روزہ تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کا سلسلہ 13 اپریل سے شروع ہوجاتا ہے۔

سکھ یاتری 10 روز پاکستان میں قیام کرنے کے بعد 22 اپریل سے واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں۔

قومی خبریں سے مزید