• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان سینٹر فارفلن تھراپی کے ایک سروے کے مطابق پاکستانیوں کی جانب سے زکوٰۃ، فطرانہ اور عطیات کی مد میں سالانہ 240 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت بھی ہر سال یکم رمضان المبارک کو بینکوں کے کھاتے داروں کی رقوم سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی مد میں کاٹتی ہے جس سے حکومت کو اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے چند سال پہلے ایک عالمی ادارے اسٹین فورڈ سوشل انوویٹیو ریویو نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستانی شہری ہر سال اپنے جی ڈی پی کا ایک فیصد سے زیادہ حصہ رفاہی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا یہ طرز عمل اسلام کی تعلیمات اور عقیدے سے جڑا ہوا ہے جس میں دوسروں کی مدد اور ان کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے جبکہ بخیل کو اللّٰہ تعالیٰ نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے اسلام نے ہر صاحب نصاب مسلمان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت مندوں کی مدد کے لئے صدقہ، خیرات کرنے اور قرض حسنہ دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سال کے دوران اس عمل میں دکھاوے کا عنصر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومتی جوابدہی کی عدم موجودگی اور حکومت پر اعتماد میں کمی کی وجہ سے لوگ اب حکومت کی بجائے خیراتی اداروں کو عطیات دینے یا خود فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے 67 فیصد صاحب ثروت افراد انفرادی طور پر مستحق طبقات کی براہ راست مدد کرتے ہیں جبکہ دیگر 33 فیصد افراد صدقات و خیرات کی تقسیم کیلئے فلاحی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر دیئے جانے والے صدقات و خیرات کے باوجود پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا عملی نمونہ ہم ہر روز بازاروں، گلیوں اور چوک، چوراہوں میں دیکھتے ہیں لیکن کبھی اس پر غور کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ آخر اتنے بڑے پیمانے پر دوسروں کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ ہونے والی رقم سے سماجی سطح پر بہتری کے آثار کیوں نمایاں نظر نہیں آتے ہیں۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ صاحب ثروت افراد صدقات اور خیرات کے ذریعے لوگوں کو ایک یا دو وقت کا کھانا فراہم کرنے یا مالی مدد دے کر تصویریں بنوانے سے آگے بڑھیں۔ اس سلسلے میں ہمیں مشترکہ طور پر یا اپنی اپنی سطح پر پسماندہ طبقات کے لوگوں کو ہنرمند بنا کر معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں مدد دینے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ناصرف ہم اپنے مال کو بہتر طور پر اللّٰہ کی راہ میں خرچ کر سکیں گے بلکہ اس اقدام سے ہر شعبے میں طویل المدت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ علاوہ ازیں اس پالیسی پر عمل درآمد سے ملکی سطح پر صنفی مساوات، صحت، تعلیم اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں بھی بہتری آئے گی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر حکومت قومی سطح پر قابل اعتماد نظام تشکیل دے تو رفاہی اداروں کے اشتراک سے ہر علاقے میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جنہیں ہنرمند بنا کر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اس طرح کی دیگر حکومتی سکیموں کے ذریعے آبادی کے ایک بڑے حصے کے لئے روزگار اور مستقل مالی تحفظ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک چھوٹی سی مثال یہ دینا چاہوں گا کہ اگر کسی خاتون کو ہر ماہ چند ہزار روپے نقد دینے کی بجائے سلائی کا ہنر سکھا کر ایک سلائی مشین دیدی جائے تو وہ اس سے اپنا گھر چلا سکتی ہے۔ اگر اس عمل کو زیادہ مربوط اور منظم کر دیا جائے اور ایسی مستحق خواتین کو ہنرمند بنا کر ان کا رابطہ صنعتی اداروں سے کروا دیا جائے تو بہت سی خواتین گھر بیٹھےا سٹچنگ، پیکنگ، کٹنگ یا اس طرح کے دیگر امور سرانجام دے کر مجموعی ملکی معیشت میں اپنا پیداواری حصہ ڈال سکتی ہیں۔ صاحب اقتدار سنجیدہ ہوں تو اس حوالے سے درجنوں ایسے کام ہیں کہ جن کے ذریعے نہ صرف بیروزگاری میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ مجموعی قومی پیداوار میں بھی اضافہ ممکن ہے۔

ہمارے لئے روایتی صدقات وخیرات کو چھوڑ کر اسے پیداواری عمل میں اضافے کے لئے سرمایہ کاری کی شکل دینے کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اللّٰہ کی خوشنودی کے لئے دیئے جانے والے عطیات ضائع نہ جائیں اور ان کے غلط استعمال کا سدباب ہو سکے۔ ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک طرف ہم دنیا کی سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم ہیں اور دوسری طرف دس کروڑ سے زیادہ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہو گا کہ ایک طرف ریاست سالانہ تقریبا 500 ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، زکوٰۃ فنڈ اور دیگر ایسی اسکیموں پر خرچ کر رہی ہے اور دوسری طرف بڑے بڑے رفاہی ادارے بھی اربوں روپے کے عطیات اور زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین پر خرچ کرنے کے دعویدار ہیںتو اس کے باوجود غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے۔ اس کا واحد جواب یہی ہے کہ ہم اپنے صدقات وخیرات کو سرمایہ کاری میں تبدیل کرنے کی بجائے دوسروں کی مدد کے نام پر ضائع کر رہے ہیں اور یہ عمل اگلے سو سال بھی اسی طرح جاری رہا تو غربت اور بیروزگاری کم نہیں ہو گی کیونکہ اس کے لئے ہنر اور روزگار کی فراہمی ضروری ہے۔

تازہ ترین