پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ جاری کردی گئی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کئی شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قابلِ اعتماد رپورٹس ہیں، پاکستان میں گزشتہ سال انسانی حقوق کی صورتحال میں خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کی شناخت اور سزا دینے کیلئے شاذ و نادر ہی اقدامات کیے، ایچ آر سی پی نے حراستی مراکز میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ کیے۔
امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بلوچستان میں منحرفین کےاغوا، تشدد اور قتل کے واقعات رپورٹ کیے اور حکومت یا اس کے ایجنٹوں کے ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کی نشاندہی کی گئی۔
غیر قانونی حراست، سیاسی قیدی، آزادی اظہار پر سنگین پابندیوں کی نشاندہی بھی امریکی رپورٹ کا حصہ بنائی گئی ہے جبکہ میڈیا کی آزادی، صحافیوں پر تشدد اور صحافیوں کی بلاجواز گرفتاریوں کی نشاندہی بھی رپورٹ میں شامل ہے۔
گمشدگیاں، سنسرشپ کے مسائل، توہین مذہب کے خلاف قوانین، اقلیتوں کےخلاف واقعات اور انٹرنیٹ کی آزادی پر سنگین پابندیاں بھی پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کی رپورٹ میں شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خواتین صحافیوں کو خاص طور پر جنسی تشدد اور ہراسانی کے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی رپورٹ میں جنسی تشدد، کم عمری میں جبری شادیاں، ہم جنس پرستوں کو نشانہ بنانے، ٹرانس جینڈرز ملزمان کو مرد قیدیوں کے ساتھ رکھنے پر ہراسانی کا سامنا، پرُامن اجتماع کی آزادی میں مداخلت اور خواتین سے امتیازی سلوک کا بھی ذکر ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگست میں جبری کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق 9967 لاپتا افراد کے کیسز میں سے 7714 حل ہوئے، اگست میں جبری کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق لاپتا افراد کے 2253 کیس زیرِ التوا ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسند تنظیموں اور دیگر غیر ریاستی عناصر کے تشدد کے باعث لاقانونیت بڑھی، پاکستان میں سال 2023ء کے دوران دہشت گردی کے واقعات بڑھے، سال 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں کم از کم 386 فوجیوں ا ور پولیس اہل کاروں کی شہادت ہوئی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سرحد پار سے شدت پسندوں کے حملوں میں بھی کئی لوگوں کی جان گئی۔ فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں۔