• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب فاروق عادل کی حالیہ تصنیف کا عنوان ہے’’جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے‘‘تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ ہمارے ہا ں مورخ ریاست کے دربار میںاکثرہاتھ باندھ کر باادب کھڑا رہتا ہے یا پھروسیع تر قومی مفاد میں اس کے ہاتھ باندھ دیئے جاتے ہیں۔جو مورخ بندھے ہاتھوں کے ساتھ قلم تھامنے کی گستاخی کرتے ہیں ،ان کے ہاتھ قلم کردیئے جاتے ہیں۔لگ بھگ290صفحات پر مشتمل یہ چھوٹی سی کتاب ایک ایسا بحربیکراں ہے جس میں کئی تلاطم خیز عنوانات ٹھاٹھیں ماررہے ہیں۔فقیر ایپی کے ذکر سے شروع ہونے والا سلسلہ منیر انکوائری رپورٹ ،نواب آف کالا باغ کے قتل،اگرتلہ سازش کیس،عمران خان کی مذہبی سیاست اورمولانا طارق جمیل کے عشق سے ہوتا ہوا کچے کے ڈاکوئوں تک چلا جاتا ہے۔مگر شروع کے ابواب میں ریاست کا قبول اسلام کے عنوان سے اس سرکاری دستاویز کا ذکر ہے جسے مذہبی تقدس کا درجہ دے دیا گیا ہے۔اس دستاویز کو قرارداد مقاصد کا نام دیا جاتا ہے جو 12مارچ 1949ء کودستور ساز اسمبلی سے منظور ہوئی ۔قبل ازیں قراداد مقاصد آئین کے دیباچے کے طور پر شامل ہوا کرتی تھی مگر جنرل ضیاالحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس قرارداد کو دستور کا قابل نفاذ حصہ بنا ڈالا۔قائداعظم 11اگست 1947ء کو کی گئی شہرہ آفاق تقریر میں نوزائیدہ ریاست کی سمت متعین کرچکے تھے پھر ان کی وفات کے6ماہ جبکہ آزادی کے 18ماہ بعد ریاست کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟جناب فاروق عادل نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی جستجو کی تو معلوم ہوا کہ اسی نوعیت کی ایک قرارداد بھارت میں منظور ہوئی تھی جس میں سوشلزم اور جمہوریت کو بھارتی آئین کی بنیاد قرار دیا گیا تھا ،چنانچہ جواب آں غزل کے طور پرپاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد متعارف کروائی گئی۔جناب الطاف حسن قریشی کے سردار عبدالرب نشتر کی وفات پر لکھے گئے مضمون اور جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’مشاہدات‘‘کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان اپنے ہی ساتھیوں کے دبائو کا شکار تھے ۔کچھ عرصہ قبل ایک اور زبردست کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان ہے’’Iskander Mirza: Pakistan’s First Elected President’s Memoirs from Exile‘‘۔ پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل اور پہلے صدر مملکت اسکندر مرزا کی یادداشتوں پر مبنی اس تصنیف کے صفحہ نمبر 112پر اسکندر مرزا کہتے ہیں کہ قرارداد مقاصد سے بہت نقصان ہوا۔اسکندر مرزا کہتے ہیں کہ جب انہوں نے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان سے پوچھا کہ یہ قرارداد لانے کی کیا ضرورت تھی تو انہوں نے کہا، کچھ لوگ مجھے آئوٹ سائیڈر سمجھتے تھے ،میں نے قرار داد مقاصد لاکر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ افسوس، اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کیلئے ملک کو ہمیشہ کیلئے غیر مستحکم کردیا گیا۔

نواب لیاقت علی خان کو دبائو میں لاکر فیصلہ کروانے والے یہ کچھ لوگ کون تھے؟اس کا جواب ناں تو اس کتاب میں دیا گیا ہے ،نہ الطاف حسن قریشی صاحب نے اپنے مضمون میں وضاحت کی اور نہ ہی فاروق عادل صاحب کی تصنیف میں کوئی جواب ملتا ہے۔بہر حال یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔آگے چل کر ہم جس دوغلے پن کا شکار ہوئے ،اس کی ابتدا یہیں سے ہوئی ۔نہ خدا ہی ملا ،نہ وصال صنم ۔نہ صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکے نہ لبرل اور ڈیموکریٹک پاکستان کا خواب پورا ہوسکا۔

قرارداد مقاصد منظور کیسے ہوئی ؟یہ تفصیل بھی جناب فاروق عادل بیان کردیتے تو اس معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ۔حامد خان کی تصنیف Constitutional and political History Of Pakistanاور دیگر ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ارکان کی تعداد 79تھی۔اقلیتی ارکان کا مطالبہ تھا کہ اس قرارداد کو مشتہر کیا جائے تاکہ عوام کی رائے معلوم ہوسکے مگر اس تجویز کو مسترد کرکے اسے ایوان میں بحث کیلئے منظور کرلیا گیا۔پاکستان نیشنل کانگریس پارٹی کے رکن پریم ہری برما نے کہا ’’ہمیں کسی قرارداد کی ضرورت نہیں۔ مساوات، سماجی انصاف اور جمہوریت کے تین ابدی اصولوں کی بنیاد پر ہمیں اپنا دستور بنا لینا چاہیے۔ مذہب اور سیاست کو باہم خلط ملط کرنا نامناسب ہو گا۔ قائد اعظم نے بھی یہی اصول ورثے میں چھوڑے ہیں‘‘۔بعد ازاں وزیراعظم لیاقت علی خان ،سردار عبدالرب نشتر ،میاں افتخار الدین ،سر ظفراللہ خان ،مولانا شبیر عثمانی سمیت کئی ارکان نے اظہار خیال کیا۔جس روز ووٹنگ ہوئی ایوان میںمجموعی طور پر 31ارکان موجود تھے ۔دستور ساز اسمبلی کے 21مسلمان ارکان پارلیمنٹ نے قرار داد مقاصد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 10 غیر مسلم ارکان نے مخالفت کی۔گویا 79ارکان پر مشتمل ایوان میں سے 21ارکان کا فیصلہ پورے ملک اور قوم پر مسلط کردیا گیا۔یہ قرار داد جس سے آئین سازی کی سمت متعین کی جارہی تھی ۔بلکہ یوں کہیے کہ سمت تبدیل کی جارہی تھی ،کیا اس کی اتفاق رائے سے منظور ی کا اہتمام نہیں کیا جانا چاہئے تھا؟اگر کثرت رائے کی بنیاد پر بھی منظوری حاصل کرنا تھی تو کم ازکم ایوان میں ارکان کی معقول تعداد میں موجودگی کا انتظار کرلیا جاتا تو اس فیصلے کی کوئی وقعت اور اہمیت ہوتی۔

اسی قرارداد کی بنیاد پر آگے چل کر مذہبی شدت پسندی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کی حب الوطنی پر سوالات اُٹھائے گئے اور آخر کارانہیںپاکستان چھوڑ کر جانا پڑا ۔صرف یہی نہیںبلکہ دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت اسی مذہبی جنون کے باعث ختم ہوئی۔مقدس دستاویز کے بعد مقدس گائے کا تصور متعارف کروایا گیا اور یوں راہ کھوٹی ہوتی چلی گئی۔مذہب کا تعلق فرد سے ہوتا ہے ریاست سے نہیں،اگر ریاست کا مذہب ہوگا تو پھر مسلک بھی ہوگا اور یہ بات بہت دور تلک جائے گی،اتنی سی بات ہمارے اکابرین نہیں سمجھ پائے یا پھر سب کچھ جانتے ہوئے یہ ڈور دانستہ اُلجھائی گئی ؟ممکن ہے کبھی کسی مورخ کے ہاتھ کھلیں تو اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی جستجو کی جائے۔

تازہ ترین