• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالم ِ اسلام میںپاکستان اور ترکیہ دو ایسے ممالک ہیں جو اپنی دفاعی قوت کے لحاظ سے دنیا کے پہلے دس ممالک کی صف میں جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ ترکیہ ایردوان سے قبل دفاعی صنعت کےلحاظ سے ایک کمزور ملک تھا اور اپنی ضروریات کا صرف بیس فیصد ہی مقامی وسائل سے پورا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ طویل عرصے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ کامیابیاں حاصل نہ کرسکا تھا بلکہ اس کے اتحادی نیٹو کے رکن ممالک نے ترکیہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اسکو نہ صرف اسلحہ فراہم کرنے سے گریز کیا بلکہ کئی ایک مواقع پرپابندیاں بھی عائد کردیں۔ اس دور میں اگر کوئی ملک ترکیہ کی دفاعی ضروریات پوری کررہا تھا یعنی گولہ بارود وغیرہ فراہم کررہا تھا تو وہ پاکستان ہی تھا ۔کیا آپ کو معلوم ہےکہ قبرص کی جنگ کے دوران جب پوری دنیا نےترکیہ سے منہ موڑ لیا تھاتو یہ صرف پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ کے دبائوکی پروا کیے بغیر ترکیہ کی ہر ممکن مدد کی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں یعنی 1974 میں جب ہم بہن بھائی اپنی ترک فیملی سے ملنے قبرص گئے تھے تو بڑی تعداد میںقبرصی ترکوں نے ہمارے پاکستانی ہونے کے ناتے ( کیونکہ اس وقت تک کوئی بھی پاکستانی قبرص نہیں گیا ہوا تھا ) ہمارا خصوصی استقبال کیا اورہم غازی مگوسا کے اس وقت کے گورنر عصمت بسیم اتالائے کے گھر ٹھہرےاور وہاں کئی روزتک اعلیٰ قبرصی ترک حکام ہم سے ملنے آتے رہےاور پاکستان کا دل کھول کر شکریہ ادا کرتے رہے جو ہم سب کیلئے باعثِ فخر تھا ۔ دیکھا جائے تو پاکستان، اس دور میں ترکیہ کیلئے ہر درد کی دوا تھا۔ امریکہ نے ایف سولہ جنگی طیارے خطے میں سب سے پہلے پاکستان ہی کو فراہم کیے تھے ۔ پاکستان کے پائلٹ جن کی مہارت کی دنیا قائل ہے ،ایف سولہ طیارے ترکیہ کو ملنے پر پاکستان ہی کے پائلٹوں نے ترک پائلٹوںکو ٹریننگ دی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ ترکیہ کے اس وقت کےوزیراعظم اور بعد میں صدر بننے والے ترگت اوزال بھی پاکستان کے پائلٹوں کی مہارت سے بہت متاثر تھے اور ان کے ذاتی طیارے بھی طویل عرصے تک پاکستانی پائلٹ ہی چلاتے رہے۔ میری صدر ترگت اوزال سے اچھی یاد اللہ تھی اور ان کے ہاں طویل عرصے اسٹوڈنٹ ہونے کے دور میں آنا جانا بھی رہا ۔ وہ پاکستان کی اس دورکی ترقی سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے پاکستان ہی سے متاثر ہو کر ترکیہ میں پہلی بارآزاد منڈی اقتصادیات کے نظام کو متعارف کروایا تھا ورنہ ترکیہ میں ترگت اوزال سے قبل کسی قسم کی غیر ملکی اشیاء خریدنا ممنوع تھا اورجیب میں ایک ڈالر رکھنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ترگت اوزال کے بعد ترکیہ ایک بار پھر کئی سال تک سیاسی ابتری کا شکا ررہا تاہم ایردوان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی ترکیہ ایک بار پھر ترقی کی جانب گامزن ہوگیا۔ترکیہ اس وقت اپنی80فیصددفاعی ضروریات مقامی وسائل سے پوری کررہا ہےاور وہ دن دور نہیں جب ترکیہ اپنی سو فیصد دفاعی ضروریات کو مقامی وسائل ہی سے پورا کرے گا اور پھر سپر قوتوں کی طرح دنیا پر اپنی دھاک بٹھاتے ہوئے دفاعی سازوسامان فروخت کرنے والے ممالک میںسر فہرست ہوگا۔

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف جن کے دل میں ترکیہ کیلئے الگ مقام ہے اپنے دور اقتدار میں ان تعلقات کو تجارتی حجم بڑھانے اور دفاعی صنعتی تعاون کو فروغ دینے میںکوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ترکیہ اور پاکستان ایک بار پھر ایک دوسرے کے بہت قریب آرہے ہیں اور اس دوران ترک چیف آف جنرل اسٹاف ، جنرل متین گیوراک کےدورہ پاکستان کے دوران ترکیہ اور پاکستان کے درمیان لازمی طور پر دفاعی صنعت کے شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو مزید فروغ دینے کے بارے میں ضرور بات چیت کی گئی ہوگی۔ ویسے تو پاکستان اور ترکیہ دفاعی شعبے میں مشکل وقت میں کسی ملک کے دبائو کی پرواکیے بغیر ایک دوسرے کی کھل کر مدد کرتے چلے آرہے ہیں۔موجودہ دور میں ترکیہ دفاعی صنعت میں دن دگنی را ت چوگنی ترقی کرنے کی وجہ سے یورپ کےکئی ایک عظیم ممالک کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے، امریکہ، چین اور روس جیسے ممالک کی صف میں شامل ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ترکیہ میں آج 2 ہزار 500 دفاعی صنعتیں کام کررہی ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ترکیہ دفاعی صنعت میں اپنے غیر ملکی ماہرین کا چنائو کرتے وقت پاکستانی ماہرین کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی ایک پاکستانی ماہرین ترکیہ کی بڑی بڑی دفاعی صنعت کی کمپنیوں میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان نے ترکیہ کے ساتھ کئی ایک مشترکہ دفاعی پروجیکٹ شروع کررکھے ہیں۔ پاکستان کی ترکیہ کی جانب سے تیار کردہ اسٹیلتھ جنگی طیارے کی مشترکہ طور پر تیاری کی بھی بات چیت چل رہی ہے۔ دفاعی صنعت کے شعبےمیں ترکیہ کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور ترکیہ کے تجربات سے استفادہ کرنے کے لیےمختلف معاہدے جنرل گیوراک کے دورہ پاکستان کے موقع پرطے کیے جانے کی توقع ہے ۔ اسی دوران پاکستان نےترکیہ سےتین ارب ڈالرمالیت کادفاعی سازو سامان خرید ا ہے ۔ اس کے علاوہ ملجم پروجیکٹ پر بھی ترکیہ پاکستان کے ساتھ تعاون کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ بحری جہازپاکستان کی میری ٹائم سکیورٹی کی صلاحیت کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوں گے۔ دراصل یہ منصوبہ ترکیہ اور پاکستان کی تاریخی دوستی اور برادرانہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔

تازہ ترین