• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں نے گزشتہ ماہ سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی کام میں مداخلت اور دبائو لانے کی شکایت کی تھی، جسے موقع پرست افراد نے اچھالنے کی بھی کوشش کی۔جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری،جسٹس بابر ستار ،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان،جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیازکی جانب سے لکھے گئے اس خط پر غور کیلئےعدالت عظمیٰ فل کورٹ اجلاس منعقد کرچکی ہے۔اسی دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے وزیراعظم شہبازشریف کی ملاقات ہوئی تھی جسکی روشنی میں کابینہ نے ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دی تھی اور جسٹس(ر) تصدق جیلانی کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا تاہم انھوں نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرلی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا ۔11اپریل کو ابتدائی سماعت میں ،اس حوالے سے کہ اعلیٰ عدلیہ کا بطور ادارہ کیا ردعمل ہونا چاہئے، سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاقی حکومت سے تجاویز طلب کی تھیں۔یہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کاپہلا معاملہ ہے اور مستقبل میں ایسے رجحانات سے کیسے بچا، یا نمٹا جاسکتا ہے، ذمہ داروں کا تعین کیسے ہونا چاہئے،یہ وہ سوالات ہیں جو کسی بھی ذہن میں پیدا ہوسکتے ہیں،اس میں منفی سوچ اور رجحانات سے بچنے کی ضرورت ہے اور دوسرے ممالک اس کا جو اثر لیں گے ،وہ ملک و قوم کیلئےباعث ندامت ہو سکتا ہے۔جمعرات کے روز کراچی میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا کہ عدالتی معاملات میں مداخلت قبول نہیں کی جائے گی البتہ جب سے چیف جسٹس بنا ہوں، مجھے مداخلت سے متعلق کسی ایک جج کی بھی شکایت موصول نہیں ہوئی،اور جو بھی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں وہ میرے عہدہ سنبھالنے سے قبل کے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود کو بھی اس معاملے سے الگ کر رکھا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔ادھر عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف از خود نوٹس کے تحت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 6رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے جو 30اپریل کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔نئے بینچ میں گزشتہ سماعت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی شامل نہیں ہیں، انھوں نے اپنے تحریری نوٹ میں خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔دوسری جانب سول ایجنسیوں پر اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے بارے میں ایک تاثر پایا جاتا ہے ۔ماضی میں ہونے والے بعض فیصلوں کی روشنی میں کہ حکومتیں عدالتوں پر اثر انداز ہوتی آئی ہیں اور ان میں بعض مشہور کیس بھی شامل ہیں، اس حوالے سے آئندہ کیلئے پارلیمنٹ کی مدد سے موثر پالیسی بنائی جاسکتی یا گزشتہ میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ،سیاستدان اور عدلیہ کے حوالے سے ناقدین کی مثبت رائے کے مطابق مسئلے کے حل کا ایک پہلو یہ بھی نکلتاہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اوپن ڈائیلاگ کا اہتمام کریں اور تعمیری نقطہ نظر سے ماضی کی غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے آئندہ کیلئے ایسے چارٹر آف گورننس پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے جس میں آئندہ کیلئے ہر فریق اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوامی ترقی و خوشحالی پر توجہ مرکوز کرے۔زندہ قومیں اپنا احتساب کرتی آئی ہیں جس سے انھیں اندرونی نقائص دور کرنے میں مدد ملی۔ملک میں ایک متفقہ آئین موجود ہے جس کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی بھی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئے بغیرقومی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین