اس ملک میں برائی کو کسی واحد شکل میں دیکھنا ناممکن ہے، یہ ہمیشہ کئی شکلوں میں، اپنی تباہ کن حالت میں ملتی ہے۔ اس مہارت اور ہنرمندی کو دیکھ کر انسان ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے جس کے ساتھ ایسے منصوبے بنائے اور نافذ کیے جاتے ہیں کہ کوئی سراغ باقی نہیں رہتا۔ برائی اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو ریاستی مشینری کی کھلی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے ایسے جرائم کا کھوج لگانا مزید مشکل ہو چکا ہے۔ بلکہ اس کا انعام بھی دیا جاتا ہے، جس میں اقتدار کی کرسی تک شامل ہو سکتی ہے۔لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ غلط کام کرنے والے اور ان کے ہدایت کار پہلے کبھی اس طرح بے نقاب نہیں ہوئے تھے جتنے اب۔ میرا نہیں خیال کہ اُن کے وہم و گمان میں بھی ہوگا کہ ایسا کوئی موقع آ سکتا ہے جب وہ عوامی عدالت کے کٹہرے میں اس طرح کھڑے ہوں گے ۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسے منصوبہ سازوں اور کارگزاروں کیلئے عوام کے دل میں جتنی تلخی پیدا ہوچکی ہے، وہ اب دور نہیں ہو گی۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس تعلق میں بہتری کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ پسندیدگی کا وہ تعلق بھی تحلیل ہورہا ہے جو ماضی کے کچھ افسوس ناک سانحات کے باوجود اپنی جگہ پر موجود تھا۔
پرانے تعلقات جب عوامی طاقت کے دبائو تلے چٹخنا شروع ہو گئے ہیں، ماحول میں ایک عمومی تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ابھی وقت ہے کہ آئینی اور پائیدار طرزعمل اختیار کیا جائے۔ لیکن انتہائی دھاندلی زدہ انتخابی عمل کے بعد حکمران اسے ہر ممکن طریقے سے ناکام بنا رہے ہیں۔ اس کوشش میں انھیں طاقت ور حلقوں کی کھلی حمایت بھی حاصل ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل کر ایماندار حکمرانوں کے پاس چلا گیا جن کی ترجیح اپنی تجوریاں بھرنے کی بجائے ریاست اور اس کے عوام کا مفاد ہے تو پھر دوبارہ ان کے اقتدار میں آنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔ یہی وہ انجام ہے جس کا سامنا کرنے کیلئے وہ تیار نہیں۔ اس لیے ریاست اور اس کے عوام پرسیاہ رات کی اذیت کے تسلسل کیلئے جابرانہ اور فسطائی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوران ریاست ناکامی کے دہانے پر ڈگمگا رہی ہے جب کہ عوام دو وقت کی روٹی کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
لیکن اس حالت کا لامتناہی وقت کیلئے تسلسل بھی غیر فطری بات ہے۔ اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکلے گا۔ یہ حقیقت وقت گزرنے کے ساتھ عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقتور حلقے، جن کے ہاتھ میں کل اختیار ہوتا تھا اور جو اپنے پراکسی آلہ کاروں کے ذریعے نظام مسلط کیے ہوئے تھے، کو خوف محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ شریفوں اور زرداریوں سے تو وہ کامیابی سے نمٹنا سیکھ چکے تھے۔ بس ایک کو چلتا کیا اور دوسرے کو اقتدار پر بٹھا دیا۔ پھر دوسرے کو چلتا کیا اور پہلے کی باری آگئی۔ لیکن اُنھیں اس چیلنج کا ادراک نہیں تھا جس کا سامنا ایک صاحب کردار، بلند حوصلہ اور پرعزم شخص سے نمٹنے میں کرنا پڑیگا۔ جب 2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے عمران خان وزیر اعظم بنے تو ظاہر ہے کہ ان کی راست بازی اور شخصی دیانت ان کیلئے ناقابل قبول تھی۔ چنانچہ روز اوّل سے ہی انھیں گھر بھیجنے کیلئے سازشیں شروع کر دیں۔ انھیں اس میں تین سال لگ گئے، جب کہ شریف اور زرداری دھڑوںکی شراکت داری اور اراکین اسمبلی میں اربوں روپے کی نقد رقوم مبینہ تقسیم کی گئیں، تو کہیں جا کر خان کو گھر بھیجا جا سکا۔ انھوں نے اپنے سابق بدعنوان شراکت داروں کو دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھا کر فتح کا جشن منایا۔
لیکن انھوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ شکست ماننے کی بجائے جب عمران خان نے مزاحمت کے تیور دکھائے تو انھوں نے منفی حربے استعمال کرنا شروع کر دیے۔ پہلے عمران خان کو سیاسی طورغیر متعلق کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد جسمانی طور پر ختم کرنے کا مبینہ حربہ آزمایا۔ دونوں کوششوں میں ناکام رہنے پر خان صاحب کو جھوٹے، بے بنیاد اور من گھڑت مقدمات میں ملوث کردیا۔ عدالتوں کو استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو اکتیس برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ اُن کی اہلیہ کو بھی نہ بخشا۔ انھیں بھی ایک کیس میں قید کی سزا دے دی۔
لیکن ان کے سامنے ایک چیلنج ابھی تک موجود ہے جس کی شدت میںوقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ارباب اختیار کیلئے قیدی خان اس سے زیادہ طاقتور شخصیت بن چکے ہیں جتنے وہ آزاد رہتے ہوئے تھے۔ ان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عوام کے دلوں پر اُن کا راج ہے، اور عوام نے اُنھیں آٹھ فروری کو، تاخیر سے ہونے والے انتخابات میں بھرپور اکثریت دی تھی۔ لیکن رات کی تاریکی میں عوامی مینڈیٹ کو چرا لیا گیا۔ جیتنے والوں کو ہرا دیا گیا اور وہ جو ابتدائی گنتی میں ہارے تھے، وہ نو فروری کی صبح فتح مند دکھا دیے گئے۔ سازشیوں اور ان کے کارندوں کا خیال تھا کہ وہ میدان مار چکے، اور خان اب ایک بھولی بسری کہانی ہو گا۔ انھیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کی قسمت میں اس سےبھی بڑا دھچکا ابھی باقی ہے۔
خان صاحب پر کئی طرح کی مشکلات نے نہ تو اُن کے حوصلے کو پست کیا اور نہ ہی ان کے پیروکاروں کا عزم کمزور ہوا۔ ان کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ ایک ایسا شخص جس کے بارے میں سازش کرنے والوں نے سوچا تھا کہ اسے آسانی سے ایک طرف پھینک دیا جائے گا، اس کا قد ان کی سوچ سے بھی بلند ہوچکا ہے۔ آج وہ اڈیالہ کے اپنے چھوٹے سے سیل میں ملک کی تقدیر کی کنجی اپنے ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ان لوگوں کے خوابوں کا حصہ ہیں جو ان کے ہر حکم پر لبیک کہنے کو تیار ہیں۔
پیہم ناکامیوں کے بعد اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے معقولیت کا دامن تھامنے کی ضرورت تھی تاکہ ملک جس خوفناک تعطل کا شکار ہے اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔ لیکن طاقتور حلقے اور ان کے شراکت دار اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خوف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے خان اور اُن کے حامیوں کے عزم کو دبا سکتے ہیں۔ ایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ جس کو وہ کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی طاقت ہتھیاروں کی مرہون منت نہیں۔ وہ ان لوگوں کے دلوں میں بستا ہے جو اپنے مقصد کیلئے اس وابستگی پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ناقابل تسخیر قوت ہے جب کہ ان کے حریف کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک انا ہے جس نے مستقبل کا راستہ روک رکھا ہے۔ لیکن یہ رکاوٹ دور ہوکر رہے گی۔ خان قوم کو اس منجدھار سے نکالنے کے لیے واپس آئے گا، اور اس کے ساتھ ہی اچھے دن لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)