رواں برس کے آغاز میں جب ایران کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر میزائل اور ڈرون حملے اور پاکستان کے جوابی حملے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی اور یہ خیال کیا جارہا تھا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات اب کبھی بہتری کی جانب گامزن نہ ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں بھارت میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے تھے کہ ایک اور پڑوسی ملک ایران کی سرحدیں پاکستان کیلئے غیر محفوظ ہوگئی ہیں لیکن دشمن کی خوشیوں پر اس وقت پانی پھرگیا جب گزشتہ دنوں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 3 روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے اور ان کا شایان شان استقبال کیا گیا۔ اس طرح ایرانی صدر کے دورہ پاکستان، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی اور گرمجوشی کا سب سے زیادہ صدمہ مودی حکومت کو ہوا۔
ایرانی صدر ایسے وقت پاکستان آئے جب ایران، اسرائیل تنازع عروج پر تھا اور خطے میں جنگ کے بادل منڈلارہے تھے۔ ایسے میں ان کے دورہ پاکستان کے دوران پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز رہیں اور اُن کے دورے کا موازنہ فروری 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس سے کیا گیا، جب روس، یوکرین تنازع عروج پر تھا۔ ایرانی صدر کے دورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے دورے کے دوران صدر آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔ بعد ازاں وہ لاہور اور کراچی بھی آئے جہاں مزار قائد اور مزار اقبال پر صوبائی گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کے ہمراہ حاضری دی۔ ایرانی صدر کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے اور باہمی تجارت 10 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق ہوا۔ ابھی ان معاہدوں کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ امریکہ نے دھمکی آمیز انداز میں ایران کے ساتھ ان تجارتی معاہدوں پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو پابندیوں کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا اور کہا کہ ’’پاکستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔‘‘ امریکی دھمکی کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان، ایران سے تجارتی تعلقات رکھنے سے باز رہے۔
امریکہ کو پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی روز اول سے شدید تحفظات رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں 2010 ءمیں پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ کیا تھا۔ منصوبے کے تحت 1931 کلومیٹر پائپ لائن میں سے 1150 کلومیٹر ایران اور 781کلومیٹر پائپ لائن پاکستان میں بچھائی جانی تھی جس کی تکمیل جنوری 2015 میں ہونا تھی۔ منصوبے کے تحت ایران اپنے حصے کی 900 کلومیٹر پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان نے اس منصوبے پر اب تک کوئی خاص پیشرفت نہیں کی اور پاکستان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران پر عائد امریکی اقتصادی پابندیاں ہیں۔ ایران وقتاً فوقتاً اس معاملے پر پاکستان کو عالمی عدالت لے جانے اور 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ایران کو اپنی مجبوریوں سے آگاہ کیا گیاہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایران کو بھارتی اثر و رسوخ سے دور رکھنے کیلئے پاک ایران باہمی تعلقات پاکستان کے بہترین مفاد میں ہیں جس کی ایک وجہ گوادر پورٹ سے 150کلومیٹر کےفاصلے پر واقع ایرانی بندرگاہ چابہار ہے جس پر بھارت نظریں جمائے بیٹھا ہے اور وہ ایران کو اس بندرگاہ پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کرچکا ہے۔ چونکہ افغانستان ایک Landlocked ملک ہے جہاں کوئی بندرگاہ نہیں اور افغانستان کی تمام تر بیرونی تجارت کا دارومدار پاکستانی بندرگاہوں پر ہے۔ بھارت کا یہ مذموم منصوبہ ہے کہ ایران کی چابہار بندرگاہ کو توسیع دے کر اس پر اپنا تسلط قائم کرے اور اسے بذریعہ روڈ افغانستان سے منسلک کردیا جائے۔ اس طرح بھارت کو زمینی راستے کے ذریعے افغانستان تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے بعد امریکہ کے رویے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اسے پاک ایران تعلقات پر خدشات ہیں اور یہ تعلقات اسے ایک آنکھ نہیں بھارہے، اسی لئے امریکہ نے ایران سے تجارتی تعلقات کی صورت میں دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا۔ ایسے میں جب ایران پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے باوجود چین، بھارت، ترکی، جاپان اور جنوبی کوریا، ایران سے پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کر رہے ہیں، ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات پر پاکستان کو امریکی دھمکی سمجھ سے بالاتر ہے لیکن ہمیں امریکی دھمکی میں نہیں آنا چاہئے اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے اور ایران سے سستے پیٹرول کی دستیابی کو یقینی بنانا چاہئے جو پاکستان کی معیشت کی مضبوطی اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔