• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مذہب کا تعلق فرد سے ہوتا ہے ،ریاست سے نہیں۔‘‘یہ الفاظ فاضل کالم نگار برادرم محمد بلال غوری کے ہیں جو انہوں نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے مضمون میں کہے۔اسلامی تاریخ سے ہلکی سے وابستگی رکھنے والا شخص بھی اس سے اتفاق نہیں کرسکتا۔ ہمارے بعض سیکولر حضرات کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ تو اسلامی تعلیمات کا بغور مطالبہ کیا ہے اور نہ ہی اپنے سیاسی مفکرین کا۔ اسی صدی کے سب سے بڑے امریکی سیاسی فلسفی’’جان رالز‘‘ اپنی آخری کتاب میں خلافتِ عثمانیہ کے دور اور معاشرے کو دنیا کے بہترین معاشرے کے طور پر پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اندلس سے بھاگنے والے ہزاروں یہودیوں کو خلافتِ عثمانیہ نے ہی پناہ دی اور آج بھی استنبول میں ان یہودیوں کے گھر موجود ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا رواداری ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مغربی فلسفی’’مائیکل مین‘‘نے اپنی ایک کتاب میں مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرکے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی خلافت کا معاشرہ غیر مسلموں کیلئے بہترین اور مثالی معاشرہ تھا۔ یہی بات نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹر اور سابق صدر بش کی 5 رکنی کیبنٹ کے ممبر فرید زکریا نے اپنی کتاب’’فیوچر آف فریڈم‘‘میں تفصیل سے لکھی ہے۔ ہمارے لبرل اور سیکولر حضرات اگر اپنے ہی آباؤ اجداد کی کتابوں کا گہرا اور تفصیلی مطالعہ کرلیں تو انکی ذہنی اُلجھنیں دور ہوسکتی ہیں۔

پا کستان ایک نظریاتی ملک ہے اور ہر نظریاتی ملک کے بارے میں بچوں کو اسکولوںاور گھروں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ بچپن ہی سے ان کو اپنا قومی نظریہ بتایا اور سکھایا جاتا ہے۔ روسی اور چینی حکومتیں نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھیں۔ انکے بچے بچے کو بچپن سے کمیونزم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسرائیل بھی نظریاتی ملک ہے۔ اس میں بچوں کوابتدا سے یہودیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر یہ وجود میں آیا تھا۔ یہ ایک نظریاتی، مذہبی، دینی ریاست ہے جہاں برتر قانون قرآن وحدیث ہوتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودِ مدینہ سے میثاق ِمدینہ کیا تو اس میثاق میں بھی آپ کو فیصلوں کے معاملے میں’’سپریم اتھارٹی‘‘مانا گیا بلکہ تمام تنازعات، اختلافات میں آپ کا فیصلہ اٹل تسلیم کیا گیا تھا۔

دو قومی نظریہ سے اقوامِ عالم کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ دو قومی نظریہ کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مسلمان دوسری قوموں سے الگ تھلگ رہ کر زندگی گزاریں، بلکہ ہمیں تو قرآن وسنت نے یہ تعلیم دی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہمیشہ خیر خواہی اور حسنِ سلوک کا معاملہ کرو۔ تجارتی وسیاسی معاملات میں جائز اور معقول حد تک باہمی تعاون سے اور صلح جوئی سے کام لو۔ معاہدات اور عدل وانصاف کی پابندی کرو بلکہ جو غیر مسلم ہمارے ملک کے باشندے ہیں یا جو باہر سے عارضی طور پر قانونی طریقے سے یہاں آکر رہیں، ان کی تو جان ومال اورآبرو کی حفاظت یہاں کی حکومت اور مسلم معاشرے کی قانونی ذمہ داری ہے۔ ان کو اپنی عبادات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانا بھی ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ان کا پرسنل لابھی قانونی طور پر آزاد ہے۔ضمانت خود ہمارے 1973ءکے آئین نے بھی دے رکھی ہے۔ ایک اور نکتے کی طرف بھی آئیے۔

روئے زمین پر مملکت خداداد پاکستان ،ریاست ِمدینہ کے بعد روئے زمین پر اللہ کے نام پر بننے والی پہلی ریاست ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کے نفاذ کے پُر عزم ولولوں اور پُرجوش حوصلوں پر اس کی بِنا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں نے اسی نظریے کے تحت اپنی جانیں قربان کی تھیں، جیسے چاہے زندگی بسر کرنا مقصد نہ تھا جبکہ سیکولرازم کا مطلب یہ ہے تمام انفرادی واجتماعی معاملات، قومی وبین الاقوامی امور، سیاست، ریاست، تجارت، سفارت، معاشرت، غرض زندگی کے ہر اہم دائرے سے مذہب کو اس طرح بے دخل کردیا جائے کہ کسی فیصلے کی بنیاد تعقل مذہبی نہ ہو، یعنی فرد اپنی ذاتی زندگی میں یا ریاست اپنی اجتماعی زندگی میں جب بھی کوئی فیصلہ کرے، خواہ وہ کسی معاملے سے متعلق ہو، اس فیصلے کی بنیاد کسی قسم کا تعقل مذہبی نہ ہو۔ آپ خواہ کسی دین کے ماننے والے ہوں۔ یہ دین آپ کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں حکم دینے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ آپ کی عقلیت اور خواہش نفس نص کا درجہ حاصل کرلے۔ ریاست اس طرح سے نظام زندگی، نظام تعلیم، نظام اقدار مرتب کرے کہ زندگی کے کسی دائرے میں مذہبی تعقل کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت بحال ہوتی چلی جائے اور غیرمذہبی تعقل پورے منظر پر محیط ہو۔ مذہب کھیل تماشے کی طرح زندگی کے میدان میں کوئی جگہ قبول کرے۔

امریکا سمیت دیگر ریاستوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے وہ سیکولر ریاستیں ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی کی آزادی کی بنیاد’’مذہب‘‘ کبھی نہیں رہا۔ ایک ریاست کو کس طرح چلایا جاتا ہے؟ ریاست کے خدوخال کیا ہوں؟ حضرت موسیٰ یا عیسیٰ علیہم السلام کی ایسی کوئی تعلیمات اس دنیا میں موجود نہیں جن کی بنیاد پر یہودی یا عیسائی دعویٰ کرسکیں جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام کے پاس پورا فلسفہ حیات ہے۔ یہ صرف ایک نظری بات نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ایک طویل تاریخ اس پر گواہ ہے۔

تازہ ترین