• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک شخص کا دل چند لمحوں کیلئے بند ہو گیا فرشتے اسے جنت میں لے گئے جہاں اس نے دیکھا کہ ہر طرف حوریں جنتیوں کےساتھ اٹکھیلیاں کرتی پھر رہی ہیں شراب ِطہور کے دور چل رہے ہیں، فضا میں ایک عجیب طرح کی آسودگی ہے۔ یہ شخص ابھی اس فضا کو اپنے دامن دل میں سمیٹ ہی رہا تھا کہ ڈاکٹروں نے اس کا دل چالو کر دیا جس کے نتیجے میں وہ واپس اپنی حقیقی دنیا میں آ گیا ۔چند برس بعد جب اس کا واقعی انتقال ہوا تو جنت میں اس نے وہی فضا ،وہی آب وہوا تلاش کرنے کی کوشش کی جو اس نے پہلی دفعہ محسوس کی تھی لیکن اسے اندازہ ہوا کہ یہ جنت وہ جنت نہیں ہے جس کا مشاہدہ اس نے عارضی انتقال کے دوران کیا تھا کیف وسرور میں اس کمی کی وجہ اس نے داروغہ جنت سے دریافت کی تو اس نےکہا’’ تم پہلی دفعہ یہاں وزٹ ویزا‘‘ پر آئے تھے جس کی وجہ سے تمہیں ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا تھا اس دفعہ تم ’’امیگرینٹ ویزا پر آئے ہو اور یوں تمہیں حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ورنہ جنت تو وہی ہے ‘‘۔

میں نے یہ لطیفہ اپنی ایک امریکہ یاترا کے دوران ایک پاکستانی سے سنا جو گزشتہ کئی برس سے امریکہ میں مقیم تھا پاکستان میں اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا بچوں کی فیسیں، ان کے بڑے ہونے پر ان کی شادیوں پر اٹھنے والے اخراجات اور معیار زندگی کی دوڑ وغیرہ اسے ہر وقت افسردہ رکھتی تھیں ایک دن وہ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا یہ دن اس کی زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا جب وہ امریکہ کی سرزمین پر اترا تو اس نے سوچا کہ اس نے اپنی ساری عمر خواہ مخواہ ایک پسماندہ ملک کے جنگلی لوگوں کے درمیان گزار دی ۔جب اسے گرین کارڈ ملا تو اس نے خوشی سے اچھلنا شروع کر دیا اور جس روز اس نے اپنا سبز پاسپورٹ ،جس کے پس منظر میں خدا جانے کون کونسی جذباتی یادیں وابستہ تھیں، پرے پھینک کر امریکی پاسپورٹ ہاتھوں میں لیا تو اسے اپنی شناخت کے گم ہو جانے پر کسی دکھ کسی نعمت سے محرومی کا احساس نہیں ہوا بلکہ اس نے امریکی پاسپورٹ کو بوسہ دیا اور کمرے میں اکیلا ہی ’’امریکہ زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا ‘‘اس نے اپنے آخری نام دائودکو اپنے امریکی دوستوں کی سہولت کیلئے ڈیوڈ میں تبدیل کر دیا، اس طرح اپنے بچوں کے پاکستانی اور اسلامی ناموں کے علاوہ ان کا ایک کرسچین نام بھی رکھ دیا تاکہ ایک نئی معاشرت میں محض اپنے نام کی وجہ سے انہیں کسی اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔

مگر پھر یوں ہوا کہ اس کے بچے بڑے ہو گئے وہ انہیں انگریزی بولتے دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا البتہ اسے اس وقت تھوڑا سا افسوس ہوا جب اسکا باپ امریکہ آیا اور وہ اپنے پوتوں پوتیوں سے اور پوتے پوتیاں اپنے دادا سے کوئی بات نہ کر سکے ۔اس کی زندگی میں وہ لمحہ بھی بہت دکھ کا تھا جب اس نے امریکہ میں اپنی والدہ کی وفات کی خبر سنی جو بچپن میں اپنے حصے کی گوشت کی بوٹی چپکے سے اس کی پلیٹ میں ڈال دیتی تھی جو اسے اپنے ہاتھوں سے نہلاتی اس کے کپڑے بدلتی اور اس کی آنکھوں میں سرمہ لگاتی اور ’’میرا چاند سا بیٹا ‘‘کہتے ہوئے اس کالے کلوٹے بچے کو اپنے سینے سے لگا لیتی تھی۔ڈیوڈ اپنی اس ماں کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکا تھا کیونکہ وہ ا بھی ایک ماہ پہلے ہی پاکستان سے آیا تھا، اس نے سوچا چہلم میں شریک ہو جائوں مگر پھر ایک حقیقت پسند دوست نے مشورہ دیا کہ جب تم ماں کا منہ نہیں دیکھ سکے اس کے جنازے کو کاندھا دینا بھی تمہارے نصیبوں میں نہیں تھا قل بھی گزر گئے چہلم بھی گزر ہی جائے گا۔اب تم اپنے مقررہ وقت پر ہی پاکستان جانا خواہ مخواہ اتنا لمبا سفر اور اتنے پیسے خرچ کرو گے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہو گا چنانچہ وہ ایک سال بعد جب پاکستان گیا تو اس عرصے میں اس کی آنکھ کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے، انہی دنوں ’’ڈیوڈ‘‘ کی زندگی میں ایک اور سانحہ ہوا اس کی بالغ بیٹی نے ایک نیگرو کے ساتھ رہنا شروع کر دیا او رکچھ عرصے بعد وہ ایک ناجائز بچے کی ماں بن گئی وہ اپنے اس بچے کو اس کے نانا اور نانی سے ملانے کیلئے ایک دن گھر آئی مگر ڈیوڈ نے اس کیلئے دروازہ نہیں کھولا بس دیوار پہ اپنا سر ہلکے ہلکے پٹختا رہا اور روتا رہا۔

یہی ڈیوڈ مجھے امریکہ میں ملا اب وہ نئے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش میں ہے مگر اس نے مجھے کہا کہ واپس پاکستان جاکر میں اس کا یہ پیغام لوگوں تک ضرور پہنچائوں کہ جو لوگ ذہنی طور پر پہلے ہی سے امریکہ میں رہتے ہیں اور جن کا مسئلہ کلچر مذہب زبان یا اس طرح کی دوسری دقیانوسی چیزیں نہیں ہیں وہ بلاخوف وخطر اپنی جنت امریکہ میں آئیں لیکن جن لوگوں کیلئے یہ چیزیں مسئلہ ہیں وہ جان لیں کہ امریکہ میں اگر ان کی پہلی نسل نہیں تو دوسری یا تیسری نسل کا وہی حشر ہونا ہے جو میری خواہشات کی فراوانی کی وجہ سے میری پہلی نسل کا ہوا وہ یہاں مسجدوں کی بہتات اور اسلام پاکستان اور قومی زبان کے فروغ کیلئےکام کرنے والی تنظیموں کے وجود سے اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کیلئے تاحد نظر پھیلے ہوئے امریکی معاشرت کے سمندر میں کوئی جزیرہ تلاش کرلیں گے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں دراصل مہنگائی، بے روزگاری اور بدترین سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ اشیا کے حصول کی خواہش نے ہم سب کی آنکھیں بند کر دی ہیں ہم نے کچھ حاصل کرنےکیلئے بہت کچھ کھودیا ہے ۔ڈیوڈ نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں پاکستان کے حاکموں ،سیاست دانوں، عالموں اور اخبار نویسوں کو بھی یہ پیغام دوں کہ خدا کیلئے لوگوں کو پاکستان سے متنفر نہ کرو اور یہ بھی کہنا کہ میں نے انہیں جو امیگریشن ویزا والا لطیفہ سنایا ہے وہ اس پر ہنسنا چاہیں تو ہنس لیں لیکن اس لطیفے میں میرے دکھ پروئے ہوئے ہیں۔

میں نے ڈیوڈ کا یہ پیغام آپ سب تک پہنچا دیا ہے مگر مجھے یقین ہےکہ ابھی فون کی گھنٹی بجے گی اور میرے کانوں میں کسی اجنبی کی آواز سنائی دےگی قاسمی صاحب میں نے ابھی آپ کا کالم پڑھا ہے پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ،میں ہرگز امریکہ نہیں جانا چاہتا مگر میں پانچ سال سے بیروزگار ہوں اور میں نے اپنی تین بہنوں کی شادیاں کرنی ہیں اگر امریکی سفارتخانے میں آپ کی کوئی واقفیت ہو تو ......

تازہ ترین