• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بزرگ مرحوم افضل احسن رندھاوا نے ایک کتاب’’شیشہ اک لشکارے دو‘‘ لکھی، اس کتاب میں مشرقی اور مغربی پنجاب کا عکس نظر آتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب دونوں ملکوں کا اناج گھر ہے، 1947ء سے پہلے اس خطے پر برطانوی راج تھا، انگریزوں نے اقتدار کی ابتدا میں بنگال کو تقسیم کیا کیونکہ بنگالیوں میں تعلیم عام تھی اور سیاسی شعور بہت زیادہ تھا، سو انہوں نے پڑھے لکھے سیاسی شعور کے حامل لوگوں کو آغاز ہی میں تقسیم کر دیا، یوں مشرقی اور مغربی بنگال بن گئے۔

1947ء سے کچھ سال پہلے برطانوی آقاؤں کو یہ احساس ہوا کہ ہندوستان میں سب سے خوشحال خطہ پنجاب ہے، یہاں کی زمینیں سونا اگلتی ہیں، یہاں کا کسان خوشحال ہے، پنجاب نہ صرف خوشحال لوگوں کی دھرتی ہے بلکہ یہ سورماؤں کا دیس ہے، اسی لئے جنرل ڈائر کو جلیانوالہ باغ کو مقتل بنانا پڑا، وہ پنجاب کے ہر نوجوان میں بھگت سنگھ کا عکس دیکھ رہے تھے، سو انگریز نے برصغیر کو تقسیم کرتے وقت پنجاب کو خصوصی طور پر تقسیم کیا، اس تقسیم کی وجہ سے پنجابیوں کو بڑے پیمانے پر ہجرت کرنا پڑی، اس مرحلے پر لاکھوں پنجابیوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا، یوں ایک خوشحال خطے میں بدامنی، نفرت اور ظلم کے بیج بو دیئے گئے۔

تقسیم سے پہلے پنجاب کے پانچ ڈویژن تھے، راولپنڈی، لاہور، ملتان، جالندھر اور دلی۔ لاہور، ملتان اور راولپنڈی، تین ڈویژن پاکستان کے حوالے کر دیئے گئے جبکہ دلی اور جالندھر، بھارت کو دے دیئے گئے، یا یوں کہہ لیجیے کہ تیس میں سے سترہ اضلاع پاکستان اور تیرہ اضلاع بھارت کو دے دیئے گئے۔ یہاں انگریز سرکار نے ایک اور خوفناک کام کیا، انہوں نے بھارت کیلئے کشمیر کا دروازہ کھلا رکھنے کی خاطر گورداسپور ضلع ہی کے ٹکڑے کر دیئے، آج مقبوضہ کشمیر کو جانے کے لئے بھارت کے پاس جو زمینی راستہ ہے وہ گورداسپور سے ہوتا ہوا پٹھان کوٹ سے گزر کر سامبا اور کٹھوعہ میں داخل ہوتا ہے۔ اگرچہ بھارت کے پاس پنجاب کے دو ڈویژن آئے تھے مگر اس نے ان دو ڈویژنوں کو چار صوبوں میں تبدیل کر کے پنجاب کے طاقتور اور خوشحال طبقے کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے دلی کو الگ صوبہ بنا کر باقی پنجاب کو ہریانہ، ہماچل پردیش اور پنجاب میں تقسیم کر دیا جبکہ فیروزپور سے آگے پنجاب کا بہت سا علاقہ راجستھان کے حوالے کر دیا گیا۔ بھارت کی اس نئی تقسیم سے پنجابی سکھوں کی سیاسی طاقت میں کمی واقع ہوئی لیکن ایک حقیقت برقرار رہی کہ پنجاب پورے بھارت کا اناج گھر بنا رہا، آج بھی بھارت کا اناج گھر پنجاب ہی ہے۔

جواہر لعل نہرو کی زرعی اصلاحات کے باعث بڑے زمینداروں کی سیاسی طاقت کو توڑا گیا مگر اس کے باوجود مشرقی پنجاب کا کسان محنت میں جت گیا، احسن اور عمدہ کاموں کو برا نہیں کہا جا سکتا، حکومتی سطح پر بھارتی پنجاب کے کسانوں کا بہت خیال کیا گیا، ان کے لئے کھاد، پانی اور بیج کا حصول سستا اور ہر سطح پر ممکن بنایا گیا۔ بھارتی پنجاب میں چھوٹی سڑکوں کے ذریعے کھیت اور منڈی کا ملاپ آسان بنایا گیا، خریداری کے حکومتی مراکز نے کبھی کسان کو پریشان نہیں ہونے دیا۔ بھارتی پنجاب میں زرعی تحقیق کے مراکز شاندار انداز میں کام کر رہے ہیں، وہ اپنے کسانوں کو نیا طاقتور بیج فراہم کرتے ہیں، اسی لئے ایک جیسے موسمی حالات کے باوجود بھارتی پنجاب کا کسان اوسطاً فی ایکڑ ستر من گندم پیدا کرتا ہے جبکہ ہمارا پنجابی کسان پورا زور لگا کر اوسطاً فی ایکڑ چالیس من گندم اگاتا ہے، یہی فرق دوسری فصلوں میں بھی ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں گنا فی ایکڑ آٹھ سے دس ٹن پیدا ہوتا ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں گنا فی ایکڑ بیس سے بائیس ٹن پیدا ہوتا ہے۔ دو تین سال پہلے مودی نے بھارتی پنجاب کے کسانوں کو امبانی جیسے ساہو کاروں کے ہاتھوں بیچنے کی کوشش کی مگر پھر کسان ڈٹ گئے، انہوں نے مظاہرے کیے، دھرنے دیئے اور مودی کی کوشش ناکام بنا دی پھر بھارتی پنجاب کے کسان ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو لے آئے۔ اب بھارتی پنجاب میں کسانوں کی زمینوں اور گھروں کے لئے پانی اور بجلی مفت ہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ بھارتی پنجاب میں حکومت نہ فصل کو رلنے دیتی ہے نہ کسان کو بلکہ فصلوں کو باہر بھجوانے کے لئے حکومتی تعاون ہر وقت تیار رہتا ہے۔ اروندکجریوال مفت تعلیم اور صحت سمیت دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ کسانوں کو سہولیات دینے میں لگا ہوا ہے۔ 1947ء کے بعد ہمارے یعنی مغربی پنجاب کا کیا حال ہوا یہ بڑی المناک داستان ہے، سب سے پہلے تو کلیموں کے ذریعے ظلم بویا گیا، جو لوگ ہجرت کر کے آئے، ان میں سے کچھ کے رشتہ دار سرکاری ملازمین نے ان کے بڑے بڑے کلیم داخل کر دیئے یعنی جس نے یہ کہا کہ ہمارے’’پودینے کے باغات‘‘تھے اسے کئی کئی مربع زمین الاٹ کر دی گئی، یوں ابتدا ہی نا انصافی سے ہوئی۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین