پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے اتنا دب چکا ہے کہ سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی معیشت کو اس بوجھ سے آزاد کرانا اس کی مجبوری بن گیا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک ، دوسرے عالمی اداروں اور دوست ممالک سے لئے گئے اربوں ڈالر کے قرضوں سے نجات میں ہی اب اس کی فلاح ہے جس کیلئے نئی منتخب حکومت روز اول سے سرگرداں ہے۔ سعودی عرب کی 30 صف اول کی سرمایہ کار کمپنیوں کے 50 رکنی وفد کی آمد اسی سلسلے کی کڑی ہے جو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن کے مطابق سرمایہ کاری کے مواقعے کا جائزہ لینے اور مختلف معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں کو عملی شکل دینے میں معاونت کیلئے پاکستان کے دورے پر آیا ہے۔ خود ولی عہد شہزادہ محمد بھی دس سے پندرہ مئی کے دوران پاکستان آنے والے ہیں جس کے دوران پانچ ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہونگے جو مزید کئی ارب ڈالر کے معاہدوں کاپیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اس دورے کی اہمیت کے پیش نظر خود اس کے انتظامات کی نگرانی کرینگے۔ پیر کو انہوں نے سعودی وفد میں شامل سرمایہ کاروں اور کاروباری شخصیات کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سات عشروں سے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔ اس نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا ہے اور آج بھی ہر سطح پر مدد کرنا چاہتا ہے۔ تقریب میں وفاقی وزرا، آرمی چیف اور کاروباری شخصیات بھی شریک تھیں جو پاکستان کی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سعودی سرمایہ کار اس کونسل کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کونسل ان کیلئے بہترین ماحول فراہم کریگی۔ سعودی عرب کے معاون وزیر ابراہیم بن مبارک نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا اسٹرٹیجک دوست اور شراکت دار ہے، سعودی سرمایہ دار نجی شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں اور تجارت کیلئے پاکستان ان کی ترجیح ہے ہم پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی ایک تقریب میں کہا کہ سعودی عرب سے ہماے تاریخی برادرانہ رشتے اب مشترکہ معاشی تعلقات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب ہر دور میں ہمارا قابل اعتماد برادر ملک رہا ہے اور پاک سعودی عرب سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد خوشحالی کی نوید ہے۔ 30 سے زائد کمپنیوں کے وفد کی پاکستان آمد پاکستان سے ان کے لگائو کی واضح علامت ہے۔ پاکستان در حقیقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے اور معاشی اصلاحات اور مختلف اطراف سے قرضوں کے حصول کےذریعے ان مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے عالمی بینک سے بھی آٹھ ارب ڈالر کے قرضے کی بات چیت چل رہی ہے۔ حکومت اقتصادی اصلاحات لانے کی بھی کوشش کر رہی ہے جن کا مقصد جی ڈی پی کی نسبت سے ٹیکس کی شرح بڑھانا، توانائی کی قیمت کم کرنا، حکومت کی زیر ملکیت اداروں کی نجکاری اور انسانی وسائل کے استعمال میں بہتری لانا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جب سرمایہ کاری کیلئے ماحول سازگار بنایا جائے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام، دہشتگردی اور بدامنی کے واقعات اس راستے کی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ایسے میں پورے عزم کے ساتھ سعودی سرمایہ کاروں کا پاکستان آنا اور ان کے ساتھ ہونیوالی مفاہمتوں کی ضمانت کیلئے خود سعودی ولی عہد کا مجوزہ دورہ پاکستان ایک بڑی پیشرفت ہے۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ تاریخ کے اس اہم موڑپرریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز اتحاد و اتفاق کیلئے اپنی توانائیاں وقف کر دینگے تا کہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر چل نکلے۔