اُس کےصبیح چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ عجیب سا اضمحلال و اضطراب پورے سراپے سےعیاں تھا۔ ’’کیابات ہے ماہم، اینی پرابلم…؟؟‘‘ وَردہ نے اُسے سوچوں میں گم دیکھ کر پوچھا۔ ’’نہیں…کچھ نہیں، کچھ خاص نہیں، سب ٹھیک ہے، تم سُناؤ کیا چل رہا ہے؟‘‘ ماہم نے لہجے میں بشاشت پیدا کرکے قطعیت سے جواب دے کر بات ہی بدل دی۔ ’’بس بھئی، جب سے دانیال صاحب کو نیا کانٹریکٹ ملا ہے، جان عذاب کر رکھی ہے، ہرکام میں نکتہ چینی، ہر جگہ تنقیدی نگاہ، ارے اتنی ہی پرفیکشنسٹ چاہیے، تو پے بھی تو اُسی حساب سے کریں ناں!!‘‘ وَردہ بھی اُس کی پریشانی بھول بھال اپنے دُکھڑے سنانے بیٹھ گئی، تو ماہم نے بھی اپنی طرف سےاُس کا دھیان بٹتا دیکھ کر سُکون کا سانس لیا اور بہت دل جمعی سے اُس کے دُکھڑے سُن کر مفت مشوروں سے بھی نوازنے لگی۔
وہ ہمیشہ ہی سے ایسی تھی، کسی پر نہ کُھلنے والی اور اُس پر اُسے سب سےتو نہیں، مگر اپنے ارد گرد کے کچھ خاص لوگوں سے یہ توقع ضرور رہتی تھی کہ وہ بھی اُسے بِنا کہے سمجھیں، جان لیں کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ جیسے وہ، جنہیں بھی اچّھی طرح جانتی تھی، اُن کے بارے میں خُود بخود جان لیا کرتی تھی کہ وہ دراصل اُس وقت کیا چاہ رہے ہیں۔ ابھی صُبح ہی تو جب میٹنگ کے بعد وہ ڈاکٹر ہادیہ کے کمرے میں گئی اورحسبِ معمول اُن کی میز کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھی، تو بمشکل چند باتوں کے بعد ہادیہ نے ایک فائل کھولتے ہوئے اُس سے عجلت میں پوچھا۔ ’’ماہم! ابھی تم اِدھر ہی ہو ناں؟‘‘ تو اُس کے لیے بس یہ انداز ہی کافی تھا۔ وہ ہادیہ سے زیادہ سرعت سے اُٹھی اور اپنا پرس اُٹھا کر بولی۔’’جی، جی…مَیں اِدھرہی ہوں، ساڑھے چار بجے تک، پھر ملتے ہیں ان شاءاللہ سیکنڈ ہاف میں۔‘‘ اُسے، کبھی کسی کو خُود سے کچھ کہنا نہیں پڑتا تھا کہ ہماری طرف آؤ یا اب جاؤ۔ نہ جانے کیسے وہ ہمیشہ بھانپ لیا کرتی تھی کہ اب اُس کی ضرورت ہے تو وہ حاضر ہو جاتی اور جیسے ہی کہیں محسوس کرتی، اب وہاں اُس کی ضرورت یا گنجائش نہیں، تو وہاں سے ایسے نکل جاتی، جیسے کبھی وہاں موجود ہی نہیں تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
’’ماہم! میرے والٹ میں اے ٹی ایم کارڈ نہیں ہے۔‘‘ ولید کی آواز آئی، تو اُس نے کچن ہی سے ہانک لگائی۔ ’’کل جب آپ نے پیٹرول ڈلوا کر ایسے ہی لاپھینکا تھا، تو مَیں نے اُسی وقت گاڑی کے ڈیش بورڈ میں رکھ دیا تھا۔‘‘ ’’ممّا جی! آج ناشتے میں کیا ہے؟‘‘عائشہ کا وہی روزانہ کا سوال۔ ’’جو آپ کھائیں گی، ممّابنا دے گی۔‘‘ اُس نےعائشہ کے گال کو نرمی سے چُھوا اور اُبلتے ہوئے پانی میں پتّی ڈال کر دَم دے دیا۔ ’’بھابھی میری فائل…؟؟‘‘سرمد کمرے سےنکلا۔ ماہم نے کچن سے ملحقہ لاؤنج کے دروازے سے اندر جاکر دیوار گیر شیلف کے پہلے خانے سے فائل اُٹھا کر اُسے دی۔ سب کے چائے، ناشتے سے فراغت پانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں گئی۔
شاور لے کر اپنی تیاری کو آخری ٹچ دیا اور رِسٹ واچ پہنتے ہوئے ناشتے کی ٹیبل سے برتن اُٹھا کرسِنک میں رکھ کے، باقی کچن مکمل صاف کر کے باہرنکل آئی۔ اگر ابھی برتن دھونے بیٹھ جاتی، تو کل کی طرح ولید اُسے چھوڑ کر چلے جاتے، پھر اُسے دو چنگچیاں اور ایک بس بدل کر ڈیڑھ گھنٹہ آفس پہنچنے میں لگتا۔ اِس سےبہتر تھا کہ واپس آ کر برتن دھوتے ہوئے ساس کی باتیں سُن کر خاموش ہو رہتی کہ یہ کام آسان تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
آفس میں آج ورک لوڈ بہت زیادہ تھا۔ اُن کی کمپنی کا ایک بین الاقوامی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا، جس کےمعیار پر پورا اُترنے کے لیے انہیں مزید سخت محنت کی تاکید کی جا رہی تھی اور اُس کے پاس ہمیشہ کی طرح دینے کے لیے بہت سا وقت اور ڈھیروں ڈھیر محنت موجود تھی۔ ’’مس ماہم! یہ ٹوٹل اٹھارہ فائلز ہیں۔ کیا آج ہی ممکن ہوسکے گا؟‘‘ ’’جی جی، کیوں نہیں، لنچ ٹائم بھی تو ہے ناں!‘‘ اُس نے پُرجوش اندازمیں کہا، تو باس بھی مطمئن ہو کرچل دئیے۔
٭٭٭٭٭٭٭
گھرآتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ کام کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ آج تو لنچ بھی نہیں کرسکی اور گھر سے روانہ ہوتے ہوئے ناشتا بھی نہیں کیا تھا۔ بس، آفس میں دو مرتبہ ملنے والی چائے ہی نے اُس کے لیے فیول کا کام کیا تھا۔ اب بھی کھانے سے زیادہ اُسے چائے کی طلب تھی۔ اِس لیے سوچا کہ گھر جاتے ہی سب سے پہلے اچھی سی چائے بنا کر ساتھ میں پکوڑے تلے گی اور اہتمام سےچائے پی کر آج کچھ وقت اپنے ساتھ گزارے گی۔
یہی سوچتے ہوئے وہ گھر میں داخل ہوئی۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی برآمدے میں کھیلتی عائشہ اُس سے لپٹ گئی تھی۔ اُس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ اندر آئی، تو سامنےسے آتے ہوئے اپنے بیٹے عبداللہ کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں جیسے چمک سی آگئی۔ آگےبڑھ کر اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ’’آج جلدی آگئے اکیڈمی سے، یا گئے ہی نہیں تھے؟‘‘ ماہم نے پوچھا۔ ’’جلدی آ گیا تھا، آج ایکسٹرا کلاس نہیں تھی۔ اور…مَیں نے سُنا ہے کہ اِسی خوشی میں آج آپ ہماری پارٹی کر رہی ہیں۔‘‘ عبداللہ نےماں کے سوال کا جواب دینے کے ساتھ ہی فرمائش بھی کرڈالی۔ تو وہ عبداللہ کو اپنا بیگ تھما کر کمرے میں رکھنے کا کہہ کے، خُود سیدھی کچن میں چلی آئی۔
اُسے پتا تھا کہ بچّے پکوڑے نہیں کھاتے، تو اُن کے لیے سینڈوچز اور فرائز تیار کیے۔ ساتھ ٹرے میں اسٹرابیری ملک شیک کے گلاس سجائے، کیوں کہ بچّے چائے بھی نہیں پیتے تھے۔ ٹرے سجا کر لائونج میں رکھی اور سب کو آواز لگائی کہ ’’جلدی جلدی کھا لوآ کر۔‘‘ ویسے آواز لگانے کی ضرورت نہیں تھی کہ سب کو معلوم ہی تھا کہ اُن کی پارٹی کے انتظامات ہو رہے ہیں۔ سو وہ سب لائونج میں اپنے لاڈلے چاچو کے ساتھ موجود تھے۔ بچّوں کی خوشی دیکھ کر ساس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ چُکی تھی۔ اور سب خُوش تو اُن کی خوشی میں ماہم بھی بہت خُوش تھی۔
یوں بھی ماہم کےاندر تو اپنےبچپن ہی سےجیسے ایک ماں چُھپی بیٹھی تھی۔ اُس کے ابّو جی کو چکن کی کون سی بوٹی پسند ہے، یہ پتا چلنے کے بعد وہ بوٹی کھانا ماہم کے لیے گویا حرام ہو چُکا تھا۔ اس کی امّی جی کن باتوں سے ری لیکس ہوتی تھیں، وہ تمام امور اُسے ازبر تھے، جبھی تو شادی کے بعد بھی میکے آتے جاتے بہت سے کام ایسے تھے، جو وہ بغیر کہے کچھ اِس طرح چُپکے سے انجام دے آتی کہ اُس کے ماں باپ کو بھی معلوم نہ ہو پاتا۔ اُن کی بہوئوں کو ماہم کچھ اس سہولت سے ٹریٹ کیا کرتی کہ وہ محض ماہم کی محبّت میں اپنے ساس، سُسر کا کچھ زیادہ خیال رکھنے لگی تھیں۔ شادی سے پہلے تو وہ ہردل عزیز تھی ہی، مگر شادی کے بعد بھی اُس کا میکےجانا بھابھیوں کو ہرگز نہ کھلتا تھا۔ میکے میں اُس کی موجودگی خوش گواریت کا احساس لیے رہتی، تو سُسرال تو تھا ہی اُس کا گھر۔
٭٭٭٭٭٭٭
اپنے لیے چائے، پکوڑے بنانے کا خیال دل سے نکال کر اُس نے پریشر کُکر میں سالن چڑھایا۔ فریج سے آٹا نکال کر روٹیاں بنا کر ہاٹ پاٹ میں رکھیں۔ سِنک، صُبح اور دوپہر کے کھانے کے برتنوں سے بَھرا ہوا تھا، اُنہیں دھو کر کچن سمیٹا۔ اور سالن کو فائنل ٹچ دے کر سب کچھ ریڈی کر کے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ لائونج میں سُنا، ساس کسی سے فون پر کہہ رہی تھیں۔ ’’بس، جیسا تیسا پکا کر رکھ جاتی ہے، ہم صبر شُکر کر کے دوپہر کو کھا لیتے ہیں۔ ہاں، شام کو تازہ ہنڈیا پکاتی ہے۔ روٹیاں ہاٹ پاٹ میں رکھ کر کمرے میں آرام کرنے گئی ہے۔ ہاں بھئی، اب اتنا تو حق بنتا ہے کہ کھانا ہم خُود ہی ڈال کر اُس کے میاں اور بچّوں کو بھی کِھلا دیں کہ صبح سے گھر، دفتر، کچن میں گھن چکر بنی رہتی ہے۔ اب اتنا آرام تو اُس کا حق بنتا ہے۔‘‘
پتا نہیں، وہ اُسے سُنارہی تھیں یا سراہ رہی تھیں، وہ سمجھ نہ سکی۔ ہاں، ماہم نے لفظ ’’آرام‘‘ پر ضرور سوچا کہ ہاں اتنا آرام تو حق بنتا ہے۔ مگر کمرے میں داخل ہوئی تو کمرا کسی اصطبل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اُس کی تھکن مزید بڑھ گئی، جیسے تیسے کمرے کو درست کرکے اُس نےبستر پر لیٹ کر کمر سیدھی کی ہی تھی کہ ولید ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئےاور بیگ ایک طرف پھینک کر کرسی پر ڈھے گئے۔ ’’محترمہ بیگم صاحبہ! آرام سے فرصت مل گئی ہو تو شوہر کو بھی پانی پوچھنے کی زحمت کر لیجیے۔‘‘ ’’آرام… ابھی جسٹ کمر ہی ٹکائی تھی مَیں نے تو آپ آگئے۔‘‘
اُس نے اُٹھتے ہوئے چپّل پاؤں میں پھنسانے کی کوشش کی۔ ’’پاؤں پر ورم آگیا ہے شاید۔ زیادہ دیر جوتے پہننے اور مسلسل کھڑے رہنے کی وجہ سے۔‘‘ اُس نے سوچا اور پانی کا گلاس بَھر کر ولید کو پیش کیا۔ ’’ایک تو تم ورکنگ لیڈیز کی یہ بات بہت بُری ہے کہ کام کرکے گِنواتی بہت ہو۔ ہم مَردوں سے کبھی کسی نےنہیں سُنا ہوگا۔ ہمارے تو معمولاتِ زندگی کا حصّہ ہے پروفیشنل ازم۔ تو ہم کس پر احسان جتائیں کہ ہم کام کرتے ہیں، اور خواتین جو ذرا پروفیشنلی کوئی کام کرلیں، پھر سارا دن جملے بازیاں ہی ختم نہیں ہوتیں کہ آفس میں کام زیادہ تھا۔ یہ تھا، وہ تھا۔
ابھی تو اللہ کا شُکر ہے، میرے ماں باپ، میرا بھائی اور تو اور، میرے بچّے بھی تمہارا اِتنا ساتھ دیتے ہیں۔ جو بھی، جیسا بھی پکا کرجاتی ہو، رات کا بھی رکھ جاؤ، تو خُود گرم کر کے کھا لیتے ہیں۔ شام میں بھی جو پکا کر کچن میں رکھ کر چلی آتی ہو، وہ بےچارے خُود ڈال کر کھا لیتے ہیں، اُس پربھی محترمہ فرماتی ہیں، جسٹ کمر ہی ٹکائی تھی۔ ارے بھئی، مکمل کمر ٹکا لیں میڈم! میں خُود گلاس رکھ لوں گا آپ آرام فرمائیں۔‘‘ ولید نے گلاس اُس کے ہاتھ میں پکڑانے کے بجائے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور فریش ہونے واش روم کی طرف چلے گئے، تو ماہم نے تھکے ہوئے انداز میں بیڈ پر دوبارہ لیٹنے کی کوشش کی، مگر اندازے کی غلطی تھی یا صُبح سے شام تک کی خالی پیٹ کی گئی سخت محنت کہ بیڈ کے بجائے وہ زمین پر آ گری۔ چکر اِس زور کا تھا کہ سر، بیڈ کی پائنتی سےجا ٹکرایا اور خون کا ایسا فوّارہ چھوٹا کہ اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭
آنکھ کُھلی، تو وہ اسپتال کے بیڈ پر تھی۔ کمرا خالی تھا اور اُسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ اُس کا سَر، درد سے پَھٹ رہا تھا۔ سَر پرہاتھ لگانے سے پٹّی محسوس ہوئی۔ کچھ سوچنے کی طاقت بھی نہ تھی۔ کمرے میں داخل ہوتی ڈیوٹی نرس نے اُسے ہوش میں دیکھ کر ڈاکٹر کو آواز دی۔ ڈاکٹر نے اندر آکر چیک کیا اور نرس سے کہا۔ ’’اِن کے ساتھ جوہیں، اُن کو بلائیں۔‘‘ پریشان حال ولید کو دیکھ کروہ خُود بھی پریشان ہوگئی۔ اُٹھنے کی کوشش میں ٹیس سی اُٹھی اور وہ دوبارہ بستر پر ڈھے گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭
جمعرات کو اُس کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔ تین دن اسپتال گزار کر آج اتوار کے دن وہ گھر آئی، تو گھر میں جیسے کسی تقریب کا سماں تھا۔ اُس کے والدین، بھائی، بھابھیاں، اُن کے بچّے، ساس، سُسر، دیور، اپنے بچّے اور ولید سب ہی اُس کے گھر آنے پر نہال تھے۔ ہر کسی نے اُسے صحت کے ساتھ گھر واپس آنے پر خوش آمدید کہا، مگر عائشہ اور عبداللہ کے تو ویلکم کا انداز ہی الگ تھا۔ عبداللہ نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور عائشہ نے اُسے گُل دستہ تھمایا۔ ’’ہیپی مدرز ڈے ممّا جی!‘‘’’ارے…آج مدرزڈے ہے۔‘‘ وہ مُسکرادی۔
’’جی جناب! آج مدرز ڈے ہے، مگر مَیں نے بچّوں کوخاص طور پرسمجھایا ہے کہ شُکر کرو، تمہاری ماں زندگی، صحت اور عافیت کے ساتھ واپس آگئی ہے۔ اب ہر روز ہی تمہارا مدرز ڈے ہے۔‘‘ ولید نے آگے بڑھ کر اُسے سہارا دےکر صوفے پر بٹھایا۔ ’’ہاں ناں، مَیں نے کہا ہے بچّوں سے کہ جیسے تمہاری ماں نے ہر کسی کے لیے اپنی مامتا نچھاور کی ہے۔ ہم بڈھوں کو بھی ماں بن کرپال رہی ہے، ہمارے نخرے ایسے اُٹھاتی ہے، جیسے ہم ساس، سُسر بھی اس کے بچّے ہوں، تم لوگوں کا بھی فرض ہے، اُس کا ہاتھ بٹاؤ، اُس کی خدمت کرو۔‘‘ساس نے اُس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر اُس کا سَر اپنے کندھے سے لگا کر سہلایا۔
دوسرے صوفے پر بیٹھے اُس کے والدین یہ دیکھ کر نہال ہورہے تھے کہ اُن کی بیٹی کی خدمات کو سُسرال میں کیسی پذیرائی مل رہی ہے۔’’ہاں بھابھی! اب ایک ’’ماں‘‘ کافی نہیں ہے۔ ہمارے امّاں، ابّا کی ایک دوسری ’’ماں‘‘ بھی آ جانی چاہیے۔‘‘ سرمد نے بھی بڑے شرارتی انداز میں اینٹری دی۔ ’’ہائیں… دوسری ماں؟ کیا ہوگیا ہے، ہوش میں تو ہو؟‘‘ماہم کی ساس کو گویا پتنگے لگ گئے۔ ’’ارے امّاں! آپ ہی نے تو کہا ہے کہ بھابھی جان نے، ہم سب کو ’’ماں‘‘ بن کر سنبھالا ہوا ہے اور اِسی لیے بےچاری بیمار بھی پڑ گئیں، تو اب انہی جیسی دوسری ماں لانے کے لیے نہ ابّا کو زحمت کرنی پڑے گی، نہ بھائی جان کو، بس آپ میرے سہرے کے پھول کِھلا دیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری بیگم بھی آپ سب کو دوسری ماں بن کر ہی سنبھالے گی۔‘‘ سرمد نےبڑی ڈھٹائی سے اپنی بات کی وضاحت کی، تو ساری محفل زعفرانِ زار بن گئی۔
اور تب …ماہم نے بہت سُکون سے اپنے آپ کو اندر ہی اندر تھپکایا۔ ’’دیکھ لیا پگلی! یہ سب تیرے اپنے ہیں۔ تُو ایک ماں ہے، تو وہ ستّر مائوں سے زیادہ چاہنے والا اللہ بھلا تُجھےکیسے اکیلا چھوڑ سکتا ہے۔‘‘