عندلیب زہرا، راول پنڈی
’’مدرز ڈے‘‘ یا ’’مائوں کا عالمی یوم‘‘ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل دن ہے کہ اس روز اولاد اپنے محبّت و عقیدت سے لب ریز جذبات اورانواع و اقسام کے تحائف کے ذریعے اپنی ماں کو اپنی اطاعت و فرماں برداری کا یقین دلاتی ہے۔ اس روز عام طور پر ہر فرد کی زبان پر کم و بیش یہی یا اس سے ملتے جلتے کلمات ہوتے ہیں کہ ’’میری ماں دُنیا کی عظیم عورت ہے‘‘، ’’ماں، زمین پر خدا کی محبّت کا رُوپ ہے‘‘ یا ’’ماں کی دُعا، جنّت کی دُعا‘‘۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ماں کا رشتہ دُنیا کے تمام رشتوں میں اوّل گردانا جاتا ہے اور’’ حقوق العباد‘‘ میں اسے افضل ترین مقام حاصل ہے۔
جہاں ماں کے رشتے کو دیگر رشتوں پر فضیلت حاصل ہے، وہیں یہ اپنے فرائض اور ذمّے داریوں کے اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنّت رکھی گئی ہے۔ اولاد کی پیدائش، پرورش اور پھر تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل میں مائوں کی دی گئی قربانیوں کی بدولت ہی یہ تعلق ایک عظیم رشتے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور جس کا بدل ربِّ کریم نے قدموں تلے جنّت کی صُورت عطا کیا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج مادّہ پرسی نے ہر شے پر اپنا رنگ جما لیا ہے۔
پیسے اور نِت نئی اشیا کی ہوس کے باعث رشتوں میں دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں اور اکثر مائیں بھی اپنے فرائض سے غافل دکھائی دیتی ہیں۔ تب ہی سماج میں بگڑے ہوئے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد دکھائی دیتی ہے۔ آج اگر کوئی ماں یہ شکایت کرتی ہے کہ اُس کی بیٹی نافرمان ہے یا بیٹا راہِ راست پر نہیں رہا، تو میڈیا ، موبائل فون یا کسی اور کوالزام دینے کی بہ جائے سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں اُس کی کسی لاپروائی و غفلت کی وجہ سے تو اولاد کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہ گئی۔ جس طرح کوئی واقعہ یا سانحہ ایک دَم رُونما نہیں ہوتا بلکہ اس کے اسباب و محرّکات ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح اولاد بھی اچانک نافرمان و ناخلف نہیں ہوتی، بلکہ والدین کی عدم توجّہی انہیں بہ تدریج راہِ راست سے بھٹکاتی ہے اور جب والدین کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے، تو پانی سَر سے گزر چُکا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ جس طرح معاشرے میں امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام افراد اپنے حقوق و فرائض سے بہ خوبی آگاہ ہوں، اسی طرح گھر کا سکون برقرار رکھنے کے لیے بھی تمام اہلِ خانہ، بالخصوص ماں کو اپنے فرائض اور ذمّے داریوں کا ادراک کرنا ہوگا، کیوں کہ بہر حال اس کی گود بچّے کی پہلی درس گاہ ہے۔
یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر ماں نیک خصلت ہے اور رشتوں کا احترام اور اقدار کی پاس داری کرتی ہے، تو اولاد میں بھی یہی خصوصیات منتقل ہوں گی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ’’خاندانی بہو‘‘ تلاش کرنے والے لڑکی کی عادات و اطوار کا اندازہ اُس کی ماں کے کردار و عمل سے لگاتے تھے، کیوں کہ عموماً بیٹیاں اپنی ماں کا پرتَو ہوتی ہیں۔
لہٰذا، ہماری تمام ماؤں سے گزارش ہے کہ اس پُرفتن اور پُر آشوب دَور میں کہ جب اخلاقی اقدار تنزّلی کا شکار ہیں اور خاندان بکھر رہے ہیں، وہ پہلے سے زیادہ جاں فشانی سے اپنا کردار ادا کریں، کیوں کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں گی ، اُنہیں دُنیا کی اونچ نیچ ، زندگی کے نشیب و فراز سمجھائیں گی، تبھی اس عظیم رشتے کا صحیح حق ادا کر پائیں گی۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’پیارا گھر‘‘
کھانا اعتدال کے ساتھ، جی لو زندگی، عورت ہے، مشین نہیں، مامتا، فری لانسنگ (مبشرہ خالد، کراچی)، مستحکم خاندان (صبا احمد)، رمضان کی تیاری (ثنا توفیق خان، کراچی)، رمضان تربیت کا مہینہ (ارسلان اللہ خان، کراچی)، حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ(حافظ محمد اکرام الحق چوہدری، کراچی) میٹھی عید(مستقیم نبی راجپوت، نواب شاہ) عید، ایثارو ہم دردی کا دن(دانیال حسن چغتائی، لودھراں)۔
آپ کا اپنا گھر، اپنا صفحہ
ہمارا ہر دِل عزیز، مقبولِ عام صفحہ’’پیارا گھر‘‘ آپ سب کا اپنا گھر، اپنا صفحہ ہے، خصوصاً خواتین کا۔ لیکن ایک شکایت ہے، ہمیں مختلف موضوعات پر تو کافی تحریریں موصول ہوجاتی ہیں، لیکن کھانے پکانے کی تراکیب ذرا کم ہی بھیجی جارہی ہیں۔ جب کہ فرمایش سب سے زیادہ ان ہی کی ہوتی ہے۔ پھر ہم بھی چاہتے ہیں کہ آپ اپنے خاص کھانوں، اسنیکس اور دیگر ذائقے دار لوازمات کی تراکیب’’پیارا گھر‘‘ کے سب قارئین سے شیئر کریں۔ تو دیر کس بات کی، قلم اُٹھائیے اور فوراً سے پیش تر لذیذ، رنگا رنگ پکوانوں کی تراکیب ہمیں لکھ بھیجیے۔ہمارا پتا ہے:
ایڈیٹر، سن ڈے میگزین،صفحہ’’پیارا گھر‘‘
شعبہ میگزین، اخبار منزل، فرسٹ فلور،آئی آئی چندریگرروڈ، کراچی
ای میل: sundaymagazine@janggroup.com.pk