اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی 2022ء میں ہونے والی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ یہ وقت وقت کی بات ہے، یہ ایک سائیکل ہے، کل اِدھر والے دوسری طرف کھڑے ہوں گے، آج جو حکومت میں ہیں کل وقت بدلے گا تو وہ اٹھائے گئے ہوں گے۔
عدالت نے اینٹی کرپشن حکام سے کہا کہ سرکاری افسران کو نہ کرنا آنی چاہیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ اور عدالت کے فیصلے کے تناظر میں ہم نے آگے چلنا ہے، یہ جو اس کورٹ کے اندر ہوا ہم تو اس کی انکوائری نہیں کر سکے۔
شیریں مزاری کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ یہاں ہائی کورٹ کا تو پرچہ بھی درج نہیں ہوا۔
عدالت نے اینٹی کرپشن حکام سےسوال کیا کہ کیا آپ کی ٹیم گرفتاری کے لیے آئی تھی؟
اینٹی کرپشن حکام نے جواب دیا کہ جی 21 مئی 2022ء کو ہم گرفتاری کے لیے آئے تھے، ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ہم نے شیریں مزاری کو نوٹس جاری کیا تھا، گرفتاری سے پہلے ڈپٹی کمشنر کوآگاہ کیا اور تھانہ کوہسار کی پولیس ہمارے ساتھ تھی۔
عدالتِ عالیہ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔