سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی و پنجاب حکومت کو ویڈیولنک پر بانیٔ پی ٹی آئی کی حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی شامل ہیں۔
حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے روسٹرم پر آکر دلائل دیے۔
دورانِ سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے بتایا کہ اس کیس میں جو دلائل وفاقی حکومت کے ہوں گے ہم انہی کو اپنائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ فریقِ اوّل کی جانب سے کون وکیل ہے؟
حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مرکزی اپیل میں خواجہ حارث فریقِ اوّل کے وکیل تھے۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا نے کہا کہ ہم نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلےکی حمایت کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی نیب ترامیم کی حمایت کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی ذاتی حیثیت سے پیش ہونا چاہتے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ بانیٔ پی ٹی آئی بطور وکیل نمائندگی چاہتے ہیں تو جیل حکام اقدامات کریں، عدالتی کارروائی کو صرف قانونی نکات تک محدود رکھیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی ذاتی حیثیت سے پیش ہونا چاہیں تو اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مرکزی کیس میں خواجہ حارث کے ذریعے دلائل دیے گئے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی فریق ہیں انہیں سنا جانا چاہیے، یہ معاملہ نیب کی پولیٹیکل انجینئرنگ میں ملوث ہونے سے متعلق ہے، اگر بانیٔ پی ٹی آئی بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں، بانیٔ پی ٹی آئی پیش ہونا چاہیں تو ہم کیسے روک سکتے ہیں؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو یا وکیل کے ذریعے نمائندگی دی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کیس ذاتی حقوق کا نہیں، معاملہ قانون کی شقوں میں ترمیم کا ہے، کیا تمام مقدمات میں بھی ایسے ہی سائلین کو نمائندگی ملنی چاہیے، کیس ترامیم کے درست ہونے یا غلط ہونے سے متعلق ہے۔
فاروق ایچ نائیک انفرادی درخواست گزار کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے جنہوں نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مرکزی اپیلیں قابلِ سماعت بھی تھیں، یا نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی چاہیں تو آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک دلائل دے سکتے ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے، کتنے وقت تک ویڈیو لنک کا بندوبست ہو جائے گا؟
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو مخدوم علی خان نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، وفاقی حکومت متاثرہ فریق ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت کیسے متاثرہ فریق ہے؟ متاثرہ فرد ہی اپیل کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ معاملہ قانون میں ترمیم کی شقوں کا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بے نظیر کیس کے تحت یہ اپیل تو قابلِ سماعت ہی نہیں، زیادہ تر ترامیم نیب آرڈیننس سے لی گئی ہیں، ہائی کورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، عدالت متاثرہ فریق کی تعریف کر چکی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر کو آرڈیننس جاری کرنے کے لیے وجوہات لکھنی چاہئیں۔
مخدوم علی خان نے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے سے متعلق آئینی شقوں کو پڑھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر صدر مطمئن ہوں تو آرڈیننس جاری کیا جاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت نے وجوہات دینی ہیں کہ آرڈیننس اس وجہ سے جاری کرنا ضروری ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بریگیڈیئر اسد منیر کا خود کشی کا نوٹ کافی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 11 رکنی لارجر بینچ ایسی درخواستوں کو سن چکا ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل تھا جب نیب ترامیم کے خلاف درخواست سنی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ درخواست میں کوئی ایسی ترمیم چیلنج کی گئی جو آئین کے خلاف ہو؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے جو منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں اٹھایا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کسی نے کروڑوں کھا لیے، وہ لاکھوں میں بھی ہو سکتے ہیں، کیا دنیا میں ایسی کوئی مثال ہے کہ قانون سازوں نے رقم کا تعین کیا ہو؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ جو 25 ریفرنس واپس ہوئے ان کا ٹرائل کہاں ہو گا؟ کیا یہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت نہیں ہے؟ 1999ء میں نیب کا جو کنڈکٹ رہا، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ نیب کیا ملک میں کسی کو جوابدہ ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کرپشن ایک مسئلہ ہے، جس میں نیب مکمل ناکام ہو چکا ہے، نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا، نیب بتائے پچھلے 10 سال میں کتنے سیاستدانوں کے خلاف کیسز چلوائے، پچھلے 100 سال میں کتنے سیاستدانوں کو قید کیا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فاروق ایچ نائیک کو روسٹرم پر بلا لیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب نے 3 سال 1 شخص کو جیل میں رکھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ ظلم بھی بہت ہو رہا ہے، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ لوگوں پر اب تو ظلم نہیں ہو رہا ہے؟ اٹارنی جنرل! آپ نے یقینی بنانا ہے کہ ویڈیو لنک کام کرے۔
سپریم کورٹ نے بانیٔ پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک پر پیش ہونے کی اجازت دے دی اور اس حوالے سے وفاقی اور پنجاب حکومت کو ویڈیو لنک کے انتظامات کرنے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی اگر دلائل دینا چاہیں تو ویڈیو لنک پر دے سکتے ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے، کتنے وقت تک ویڈیو لنک کا بندوبست ہو جائے گا؟ ہم بانیٔ پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت بانیٔ پی ٹی آئی سے کل تک تحریری معروضات بھی طلب کر سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایک اپیل وفاق کی ہے، دوسری اپیل پرائیویٹ ہے، سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں اصول طے کیا وفاق متاثرہ فریق نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی مرکزی کیس میں فریق ہے تو وہ متاثرہ ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ میں نیب ترامیم کی مخالفت کس نے کی؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اپیل کا حق ماضی سے دینے والی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق دو پڑھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق دو سے متعلق اکثریت نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کسٹم ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کے 3 فیصلے ہیں، فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہے کیونکہ اس کا ذاتی نقصان نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فیڈریشن کو اپیل کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، اگر وفاقی حکومت کو اپنے قانون کے دفاع کا حق نہیں تو پھر کسے حاصل ہو گا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ہم خود کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا نیب ترامیم میں آئینی شق کی تشریح کا سوال تھا؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب ترامیم کو لارجر بینچ کو سننا چاہیے تھا، ہائی کورٹس میں بھی ترامیم چیلنج تھی، آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت کوئی درخواست قابلِ سماعت ہی نہیں ہو سکتی جب ہائی کورٹ میں زیرِ التواء ہو۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی دور میں ترامیم کئی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی گئیں، اتحادی حکومت نے بعد میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترامیم کو برقرار رکھا، 2021ء میں پی ٹی آئی میں کی گئی ترامیم کو خلافِ آئین قرار دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ ریمارک ایبل دلیل ہو سکتی ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جو ترامیم کیں ان کا اطلاق 1985ء سے کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم خواجہ حارث کو دلائل دینے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ خواجہ حارث کو عدالتی معاون مقرر کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالتی معاون غیر جانبدار ہوتا ہے، وہ وکیل جو کسی فریق کا وکیل رہ چکا ہو اسے عدالتی معاون مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جب آرڈیننس آئے اس وقت کی حکومت اور بانیٔ پی ٹی آئی نے ان ترامیم کو سپورٹ کیا، اس وقت کہا گیا کہ نیب کی وجہ سے بنیادی حقوق اور معیشت متاثر ہو رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیرِ قانون اور وزیرِ خزانہ نیب کے خلاف بیانات دیتے رہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ نیب قانون میں ترامیم کیا پی ٹی آئی دور کے آرڈیننس اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں؟ ترامیم کا مقصد ان افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا جن پر نیب الزامات غلط ثابت ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے انٹرا کورٹ اپیل پر آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا۔
سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کے حکم نامے میں کہا ہے کہ نیب سے پوچھا گیا کہ وہ اپیلوں کی حمایت کر رہا ہے یا مخالفت؟ نیب کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اپیلوں کی حمایت کرتا ہے۔
عدالت نےحکم نامے میں کہا ہے کہ سینئر وکیل خواجہ حارث کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے، مخدوم علی خان کے دلائل کو فاروق ایچ نائیک نے اختیار کیا۔
حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت ویڈیو لنک پر بانیٔ پی ٹی آئی کی حاضری یقینی بنائیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی جانب سے اپیل کی مخالفت کی گئی، اٹارنی جنرل اور بقیہ 4 ایڈووکیٹ جنرلز نے اپیلوں کی حمایت کی۔
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا اکثریتی فیصلہ قانوناً درست نہ تھا، بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت نہیں بنایا گیا تھا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو کیس کی روشنی میں نیب ترامیم کے خلاف اپیل قابلِ سماعت ہی نہیں تھی، بتایا گیا کہ پی ٹی آئی دور میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترامیم کی گئیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کی نیب قانون میں ترامیم میں صدارتی آرڈیننس سے ہوئی ترامیم شامل کی گئیں، وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ مرکزی درخواست گزار نے نیک نیتی سے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ مرکزی درخواست گزار براہِ راست نیب ترامیم سے متاثرہ نہیں تھے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اس حکم نامے کی کاپی خواجہ حارث اور بانیٔ پی ٹی آئی کو بھجوائی جائے۔
اس کے ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 16 مئی تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں بینچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔