اگر کوئی بچہ والدین کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی پڑھائی میں کمزور ہو تو اُنہیں بہت پریشانی ہوتی ہے کہ آخر بچے کے پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ کیا ہے؟
اس حوالے سے ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ والدین کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ بچے کی ذہنی صحت کیسی ہے، وہ کسی ذہنی دباؤ یا ذہنی بیماری کا شکار تو نہیں ہے اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بچے کی ذہنی عمر اس کی جسمانی عمر سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق، اگر دوسری کلاس کا 7 سالہ طالبِ علم ذہنی طور پر 4 سال کا ہے تو یقینی طور پر وہ کتابوں کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پائے گا۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر بچے کی ذہنی اور جسمانی صحت صحیح مطابقت رکھتی ہے اور پھر بھی مسائل کا شکار ہے تو پھر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں بچہ لرننگ ڈس ایبلیٹی اے ڈی ایچ ڈی یا آٹیزم کا شکار تو نہیں ہے۔
ہر انسان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ کام ایک جگہ بیٹھے کرسکتا ہے جیسے کہ کسی سے بات کرتے ہوئے ساتھ میں اپنا ضروری کام دھیان سے کرتے رہنا۔
تاہم جس انسان میں اے ڈی ایچ ڈی کا مسئلہ ہوگا تو وہ بیک وقت ایک سے زیادہ کاموں پر توجہ مرکوز نہیں کر پائے گا کیونکہ وہ ایک کام کرتے ہوئے دوسرا بھول جائے گا جیسے کہ وہ کچھ پڑھتے ہوئے لکھ نہیں سکے گا اور لکھتے ہوئے پڑھنے سے اس کا دھیان ہٹ جائے گا۔