بازار میں ایک پروڈکٹ کی مقبولیت کے لئے صرف اس کی ذاتی خصوصیات ہی ضمانت نہیں ہوتیں بلکہ اس کے لئے اسے ایسے کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی خوبیاں لوگوں کو ذہن نشین کرائیں اور اپنی ذات سے اس کے منافع بخش ہونے کی عملی شہادت بھی دیں جماعت اسلامی کے ارکان کا عمومی تاثر معاشرے میں ان کی صلاحیت اور صالحیت کے اعتبار سے ایک بہترین کارکن کی عکاسی کرتا ہے۔نظریاتی سیاست میں وہ پیرامیٹر نہیں ہوتے جو مادر پدر آزاد سیاست میں درکار ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی دیانت، امانت کو نہ صرف مخالف سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی بلکہ عوام بھی گواہی دیتے ہیں کہ جماعت کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ پاکستان کی آٹھ سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے جائزے کے بلڈاپ کے اسکور کارڈ میں جماعت اسلامی 56% کے ساتھ سب سے زیادہ جمہوری جماعت قرار پائی ہے۔ اس جائزے کا پیمانہ جماعتوں میں باقاعدہ اجلاس، قیادت میں تبدیلی، موروثی قیادت کی حوصلہ افزائی، پارٹی فنڈنگ میں احتساب، اختلاف رائے کی برداشت، فیصلہ سازی کے جمہوری عمل کو قرار دیا گیا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ عوامی سطح پر مقبولیت کا معیار قدرے مختلف ہے۔معروف ادارے PEW کے سروے کے مطابق پاکستان کی 78% اکثریت قرآنی تعلیمات کے مطابق قوانین کا اطلاق چاہتی ہے۔ اسلام کی حقانیت سے تو کوئی کافر ہی انکار کرسکتا ہے۔ لیکن کیا واقعی عوام اپنی ذات پر شریعت نافذ کرنے میں سنجیدہ ہیں؟ اور جو طبقہ اسلام نافذ کرنے کا دعویدار ہے کیا ان کا اپنا کردار بھی اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ 2002ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے ساتھ مل کر تاریخی فتح حاصل کی۔ مگر جمعیت علمائے اسلام کے مفاد پرستانہ رویوں کی وجہ سے رسوائی تو آپ کو سمیٹنا پڑی۔ 2013ء میں تحریک انصاف کے ساتھ مفاہمت میں آپ کے وزیروں کی دیانت داری تو ابھر کر سامنے آگئی مگر کراچی کی سطح پر بلدیاتی انتخابات میں تمام تر تدبر، احتیاط اور مول تول کے باوجود سوائے نقصان کے ہاتھ کیا آیا۔ یہ خام خیالی ہے کہ آپ کا فطری الائنس کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت فراغ۔
اصل مسئلہ آپ کی دیانت، امانت اور قیادت کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ مارکیٹ میں جو سکہ رائج الوقت ہے آپ کا دامن اس سے تہی دست ہے۔ آبادی کا اکثریتی حصہ آپ کے حق میں ووٹ تو کیا ڈالے گا وہ تو مایوسی کی ان حدوں کو چھو رہا ہے کہ ووٹ ڈالنے کا بھی قائل نہیں رہا۔ یورپ اور امریکہ میں جماعتی و جمعیتی حلقے اپنے فکری اور تنظیمی تربیت کے ساتھ دیانت داری سے ISNA- ICNA۔ اسلامک مشن اور اسلامک کلچرل سینٹرز میں اسلام کی اشاعت اور امت مسلمہ کی راہنمائی جس استقامت کے ساتھ انجام دے رہے ہیں وہ ثابت کرتا ہے کہ حالات سازگار ہوں تو جماعتی کارکن بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اور جماعت اسلامی بھی شاکرانہ حکمت عملی سے ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔
جہاں تک شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کی بات ہے تو اس کی گواہی البدر اور الشمس کے نوجوان اپنے خون سے دے چکے ہیں۔ اور آج بھی جماعت کے قائدین پاکستان سے محبت کے جرم میں بنگلہ دیش میں دار و رسن کے سزاوار ہیں۔؎
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
برما، فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے مسئلے کو جس شدت اور جنون سے جماعت اسلامی اٹھاتی ہے کہ ان پر الزام آجاتا ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
ہر پانچ سال بعد جماعت اسلامی کو ایک غیرضروری انتخابی سرگرمی سے گزرنے کے بعد علم ہوتا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا۔ جو سنا افسانہ تھا۔ ایک لاحاصل کوشش کے نتیجے میں حاصل جمع خسارے میں نکلتا ہو تو تجزیہ لازمی ہے۔ اور تجزیہ بھی بے لاگ اور بیرونی ذرائع سے۔ ایسا نہیں کہ پتہ ہی نہ چلے کہ یہ کشتی چلی یا کنارہ چلا۔ آپ کو تو ہر انتخاب میں وہ قرض بھی اتارنے پڑتے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ لہٰذا لازم ہے کہ جائزہ لیا جائے۔ نیک نامی سیاست میں ہے یا خدمت میں؟ سیاست کا نچوڑ تو نہایت واضح ہے کہ یا تو یہ آپکا میدان نہیں یا تماشائی کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں۔جب مذہب کی جگہ خرافات، صراط مستقیم کی جگہ بے راہ روی، مزاحمت کی جگہ مفاہمت برائے مفاد باہمی سکہ رائج الوقت قرار دی جاچکی ہو تو کنارہ کشی تو اختیار نہیں کی جاسکتی۔ لیکن کشتی کو منجدھار کے حوالے کر دینا بھی عقل مندی نہیں 70ء کی دہائی کے مقابلے میں جماعت کی نیک نامی وہ نہیں رہی جو اس کا خاصہ تھی ہوسکتا ہے کہ اس کے عوامل میں تعصب، برادری اور فرقہ واریت کا بہت بڑا کردار ہونے کے علاوہ جماعت کے کارکنان و رفقاء کا معیار بھی وہ نہیں رہا۔ نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میںمطالعے کا فقدان، جماعتی تعصب، بحث و تکرار بہت حد تک نمایاں ہوچکا ہے۔ غم روزگار کی وجہ سے وہ DIE HARD کارکن یا تو مایوس ہوچکے ہیں یا جمود کا شکار۔ علاوہ ازیں جماعتی دعوت احیائے دین کے لئے بے شمار دینی سیاسی جماعتیں اقامت دین و نفاذ شریعت کے نعروں کے ساتھ سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے آپ کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ممتاز قادری کے معاملے پر جلسہ جلوس جیسے پاپولر اقدام وقتی ابال تو لاسکتے ہیں مگر ان اقدام کو رفاقتی حلقوں میں سراہا نہیں گیا۔ بلکہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کل کیا تھے اور آج کیا ہوگئے ہم۔جماعت اسلامی کی روایات میں رفاحی اور فلاحی خدمات خون کی طرح گردش کررہی ہیں۔ ان خدمات کا اگر غیرمتعصبانہ جائزہ لیا جائے تو شاید ہی کوئی جماعت اس کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور ناگہانی آفات غرض کونسا ایسا شعبہ ہے جس میں جماعت محدود وسائل کے باوجود اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کا بھرپور مظاہرہ نہ کررہی ہو۔ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کا مخالفین بھی نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ تعاون بھی کرتے ہیں۔ اس میدان میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تو اپنے وسائل، سرمایہ اور محنت کو سیاست کے خارزار میں کیوں ضائع کررہے ہیں۔ ہاں البتہ اگر جماعت اپنی تمام تر توانائیاں قیادت، صحافت اور لیاقت متناسب نمائندگی کے طریقہ انتخاب میں تبدیل کرنے میں لگادیں اور عوام اور دیگر تمام متاثرہ جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے فوائد کے بارے میں معلومات فراہم کرا سکیں۔ انہیں ایک نکاتی ایجنڈے پر متحرک کرسکیں تو صورت حال تمام پارٹیوں بشمول مسلم لیگ و پیپلزپارٹی کے لئے سازگار ہوجائے گی تب تمام حلقہ جات میں دوئم و سوئم نمبر ووٹ حاصل کردہ جماعتوں کے ووٹ کائونٹ ہوکر ان کو اسمبلی میں نمائندگی دلاسکیں گیں۔ وگرنہ 25سے 30فیصد والے اقلیتی نمائندے پاکستان پر حکومت کرتے رہیں گے۔ اور مروجہ طریقہ انتخاب کے ذریعے تحریک انصاف جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے لئے کبھی کوئی گنجائش نہیں نکلے گی۔ کم از کم کراچی کی سطح پر دو انتخابی مدتوں کے لئے یہ تجربہ تو کیا جاسکتا ہے کہ اگر طریقہ انتخاب نہیں بدل سکتے تو خدمت خلق تو جماعت اسلامی کا آزمودہ میدان ہے۔ جوکہ ؎
دنیا میں بھی میزان
قیامت میں بھی میزان