بلوچستان کے ضلع واشک میں تربت سے کوئٹہ جانے والی بس ٹائر پھٹ جانے سے حادثے کا شکار ہوکرگہری کھائی میں جاگری جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 29مسافر جاں بحق اور 26زخمی ہوگئے،ان میں پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔جاں بحق ہونے والوں میں تربت یونیورسٹی کے دو پروفیسر بھی شامل ہیں۔حادثے کے 9شدید زخمی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کردیے گئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بدنصیب بس 55مسافروں کولے کر رات کو تربت سے روانہ ہوئی اور صبح چار بجے بسمیہ کے علاقے کلغلی کے قریب حادثہ پیش آیا۔اس کے ممکنہ پہلو نظرانداز نہیں کیے جاسکتے ،جو سنگلاخ، دور افتادہ اور دشوار گزار علاقوں میں آئے دن پیش آتے ہیں ۔ قانون کے مطابق روانگی سے قبل اگر گاڑی کی پڑتال اور عملے کا طبی معائنہ یقینی بنایا جائے تو ایسے طویل مسافت کے حامل سفر کو بڑی حد تک محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا،آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات میں بیشتر شاہراہوں کی حالت ترجیحی بنیادوں پر توجہ طلب ہے ۔مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے ان میں جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ دکھائی دیتی ہے ۔دوسری طرف ان پر چلنے والی گاڑیوں کی جانچ پڑتال نہ ہونے سے آئے دن حادثات رونما ہوتے ہیں۔پاکستان کا شمار زیادہ حادثات والے ممالک میں ہونے کی ایک وجہ متذکرہ کیفیت بھی ہے،جہاں زیادہ تر مسافتیں کئی کئی سو کلومیٹر پر مشتمل ہوتی ہیں۔ایسی صورتحال میں قانون کے مطابق دورانِ سفر ہر گاڑی میں دو ڈرائیوروں کا ڈیوٹی پر موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس حادثے کے پیچھے ممکنہ طور پر کارفرما تمام پہلو متعلقہ حکام کے زیر غور آنے چاہئیں ، جس کے باعث اتنا بڑا جانی نقصان ہوا۔ اس سے ذمہ داری کا تعین کرنے میں مدد ملے گی اور قوانین پر سختی سے عملدرآمدآئندہ کسی بھی غفلت سے اجتناب کویقینی بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998