• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں پیش آنے والے مختلف واقعات پر عوام کے سامنے اپنی پارٹی کا موقف رکھنے کیلئے یہ میرا مختلف ٹیلی وژن چینلوں کے متعدد دوروں میں سے ایک تھا۔ پروگرام ریکارڈ کرانے کے بعد ان میں سے ایک چینل سے باہر نکلاہی تھا جب چار ’’خواجہ سرائوں‘‘ کے ایک گروپ نےمجھ پر حملہ کر دیا۔ وحشیانہ تشدد کے دوران میرے چہرے کے دائیں جانب کسی تیز دھار آلے سے ایک انچ گہرا زخم لگا جس پر انیس ٹانکے لگانا پڑے ہیں۔ اس کے بعد سے میں اپنے چہرے پر تشدد کی علامت لیے پھرتا ہوں جس پر کئی ایک بینڈیج لگی ہیں، اور حیرانی سے سوچتا ہوں کہ کون سی وبا ہمارے درپے ہے، اور کیا میں کبھی اس تکلیف دہ اثر سے باہر نکل پائوں گا؟

یہ بالکل واضح ہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق جان لینے کیلئے کیا جانے والاحملہ تھا جس کا ہدف میری شہ رگ تھی۔ جس چیز نے میری جان بچا لی وہ تھوڑا سا نیچے جھک کر گردن کوحملے کی زد سے باہر کرنا تھا۔ اس طرح نشانہ میرا چہرہ بنا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ مجھ پر حملہ ہوا ہو۔ جب چند دن پہلے ایک اور ٹیلی وژن چینل سے باہر نکلا تو ایسے ہی ’’خواجہ سرائوں‘‘ کے ایک گروپ نے مجھ پر جارحانہ انداز میں حملہ کر دیا اور میرے جسم پر ضربیں لگائیں جیسا کہ میری جان لینا چاہتے ہوں۔ میں بچ کر بمشکل اپنی کار میں داخل ہوا تو وہ دروازے پر مکے برسانے لگے جوابھی پوری طرح بند بھی نہیں ہوا تھا اور میری ٹانگ باہر ہی تھی۔ وہ کار کی اسکرین پر بھی ضربیں لگا کر مجھے باہر نکلنے کے اشارے کرتے رہے، لیکن میں کسی طریقے سے وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت میں نے اس واقعے کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا۔ خیال کیا کہ بس یہ اس برادری کا خبطی پن ہو گا۔ لیکن بعد کے واقعے کے تناظر میں اس کا جائزہ لینے پر مجھے احساس ہوا کہ میرا تاثر ایک مہلک غلطی تھا۔

میں نہیں جانتا کہ کہاں سے اور کیوں تشدد کی یہ لہر ہمارے سماجی ڈھانچے میں سرایت کرتے ہوئے اپنے ایسے زہریلے پنجے گاڑ چکی ہے جن کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی جارہی ہے۔ لیکن تازہ ترین گھنائونے واقعات جن کا ہدف طاقتور حلقوں کے سیاسی مخالفین کو خاموش کرانا ہے، لرزہ خیز اور خوف ناک نتائج کے حامل ہیں۔ مجھ پر ہونے والا حملہ اسی ذیل میں آتا ہے کیوں کہ ملک میں جاری صورت حال پر میرے تبصرے ارباب جبر و قدر کو برہم کررہے تھے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ملک ہمیشہ کیلئے تشدد کے ایسے چکر کا شکار ہو چکا ہے جہاں اختلاف کو کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا، اور وہ جو ایسا کرنے پر مصر ہوں گے، انھیں ڈرایا جائے گا، بلکہ جسمانی طور پر ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔

معاشرے میں تشدد کی ایک خاص سطح کوئی اچھوتا واقعہ نہیں۔ ممکنہ طور پراس کی وجہ رجعت پسندی کا تسلسل ہے جس سے ملک برس ہا برس سے دوچار ہے اور جہاں انتہائی قطبیت اور اداروں کی گراوٹ کے نتیجے میں فالٹ لائنز ابھر چکی ہیں۔ اس کا ازالہ آئین سے ہدایت لیتے ہوئے اصلاحی اقدامات شروع کر کے کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن پچھلے چندبرسوں میں طاقت کے مراکز میں براجمان افراد نے قانون کی کتاب کو بہت ڈھٹائی کے ساتھ مسخ اور پامال کیا ہے۔ اس سے ایسا بحران پیدا ہوا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ماضی میں جب فوج نے مداخلت کی تو آئین کو یا تو منسوخ کر دیا یا معطل کر دیا گیا۔ آمرانہ کارروائیوں کو بعد میں عدلیہ نے ’’نظریہ ضرورت‘‘کا استعمال کرتے ہوئے قانونی شکل دے دی۔ لیکن اس بار عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے نہ تو آئین کو منسوخ کیا گیا اور نہ ہی معطل۔ یہ اپنی جگہ پر برقرار ہے لیکن اسے الماری میں بند کردیا گیا ہے۔

میری خوش قسمتی تھی کہ محض ایک گہرے زخم سے بچ نکلا، لیکن کچھ اور لوگ ہیں جو سبق حاصل کرنے کے عمل میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ میرے زخم بالآخر مندمل ہو جائیں گے، لیکن ریاست اور اس کی روح پر لگنے والے گھائو موجود رہیں گے۔ ان کا منحوس سایہ یہاں بسنے والے محسوس کرتے رہے ہیں۔ معاشرے متاثر کن معقول آوازوں کی وجہ سے زندہ رہتے اور ترقی کرتے ہیں۔ ہمارے پاس معقول آوازیں ہیں جنھیں وقت کی گلیوں میں منظم طریقے سے خاموش کر دیا گیا ہے۔ ان کی بجائے تشدد کا خوف زہر بن کر معاشرے کی رگوں میں سرایت کرگیا ہے۔ اس نے ہر فرد کو متاثر کیا ہے۔ اسکی وجہ سے آج عدم برداشت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ جیسا کہ میں آج دیکھ رہا ہوں، بات چیت کے فن، جس میں پائیدار دلائل دونوں جانب سے ارزاں کیے جاتے ہیں، کی جگہ ایسا چلن رواج پاگیا ہے جس میں صرف ایک فریق یا شخص کو بات کرنے اور اپنی رٹ لگانے کا حق حاصل ہے، چاہے اس میں کوئی منطق ہو یا نہ ہو ۔

وقت آگیا ہے جب ہمیں ماضی کے بھیانک تہہ خانوں سے ابھرنے والے سفاک حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ حقیقت ہمیں سوچنے اور اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہے جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے۔ معقول آوازوں کو نہ صرف برداشت کیا جانا چاہیے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو ہماری سوچ میں منطق کی تخم ریزی کرتی ہیں۔ ہمیں ان کی ماضی کے کسی بھی وقت سے کہیں زیادہ آج ضرورت ہے۔

ان تاریک ترین لمحات میں فیض امید افزا نغمہ سرائی کرتے سنائی دیتے ہیں :

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہو گا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل

میں تو انتہائی مایوس کن لمحات میں بھی یہ امید افزا گیت گنگناتا رہوں گا۔اس قاتلانہ حملے کو اپنے ضمیر کے گہرے چرکوں میں جذب کر لوں گا۔ براہ کرم مجھے عقل کا دامن تھام کر جینے دو اور اس کی آبیاری کرنے دو جو ہماری قسمت اور ہمارے مستقبل کو ثمر بار کر دے۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)

تازہ ترین