• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گاڑی ڈرائیو کررہا تھا۔ بیگم فرنٹ سیٹ پر ساتھ بیٹھی تھیں۔ سگنل پر گاڑی رُکی تو بیگم نے انگلی کے اشارے سے مرکزی سڑک پر لگےسائن بورڈ کی طرف متوجہ کیا، جس میں شوق ذوق سے بسکٹ کھاتی ہوئی ایک خوبرو ماڈل کی تصویر تھی، جس کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا: ”ہلکی پھلکی بھوک میں۔“ میں بیگم کا مطلب سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہیں۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر کھڑی کی۔ بائیں طرف مجھے کھانے پینے کی مختلف دکانیں نظر آئیں۔ہم ایک شاپ کی طرف چل پڑے۔ آس پاس کھانے پینے کی بیسیوں مصنوعات کے چھوٹے بڑے اشتہارات تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مصنوعی بھوک گدھوں کا روپ دھار کر یہاں پرواز کررہی ہے۔ میں نے بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ”دیکھیں ہم ابھی گھر سے بہترین کھانا کھا کر آئے ہیں۔ ہمارا پیٹ بھرا ہوا ہے، بلکہ ان فاسٹ فوڈ کھانے والوں کا بھی پیٹ تو بھرا ہوا ہی ہوگا۔

یہ سب بھی ہماری طرح مصنوعی بھوک پیدا کرکے پیزا خرید رہے ہیں۔ یہ بتائیں! یہ ہلکی پھلکی بھوک کیا ہوتی ہے؟ کیا یہ صرف زبان کے چٹخارے کا نام ہے؟“ میں نے بسکٹ کے دو پیکٹ خریدے اور واپس گاڑی کی طرف چل دیا۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا تو سامنے اسی سائن بورڈ کے نیچے ایک مفلوک الحال عورت، ننگے پاؤں، سر پر میلی کچیلی اور پھٹی ہوئی چادر اوڑھے کھڑی تھی۔ اس کی گود میں ایک ننھا منا بچہ تھا۔ یہ عورت اپنے معصوم بچے کیلئے دودھ کے ایک پیکٹ کا سوال کررہی تھی۔ اس منظر نے مجھے مبہوت سا کردیا۔ میں ایک نظر سائن بورڈ پر چسپاں اشتہار پر ڈالتا تو دوسری نظر اسی سائن بورڈ کے نیچے کھڑی عورت اور اس کی گود میں بچے پر ڈالتا۔ میں نے گاڑی میںدیکھا تو بیگم مصنوعی بھوک پیدا کرکے چٹخارے لے لے کر بسکٹ کھارہی تھیں۔ میں گاڑی سے اترا، دو پیکٹ دودھ کے خریدے۔ بچے کی ماں کے سپرد کیے اور گاڑی اسٹارٹ کرکے چل پڑاتو میرے دماغ کے نہاں خانوں پر تھرپارکر سے ایتھوپیا کے صحرا تک گردش کرنے لگے۔

تھرپارکرکے قحط نے صومالیہ اور ایتھوپیا کی یاد دلادی۔جب صومالیہ میں قحط پڑا تو سوا لاکھ لوگ بھوک سے مرے تھے۔ ایتھوپیا کے قحط کے دوران اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں نے اتنے بھیانک مناظر دیکھے کہ روتے روتے ان کی آنکھیں خشک ہوگئیں۔

ایک منظر ایسا اذیت ناک تھا جسے دیکھ کر سب کی چیخیں نکل گئیں۔ ایک ماں کی لاش صحرا میں پڑی تھی۔ اس کا ایک ہاتھ بچے کی گردن پر تھا۔ ماں نے بچے کو اپنے سینے سے چمٹا رکھا تھا۔ ماں اسے دودھ پلانا چاہتی تھی، مگر اسی دوران مرگئی۔ کئی دنوں سے بھوکی پیاسی ماں دودھ کہاں سے لاتی، اس کا خون ہی ختم ہورہا تھا۔ وہ اپنے لخت جگر کو دودھ کیسے مہیا کرتی؟

میری نظروں کے سامنے افغان عوام کے غربت و افلاس کے دلخراش مناظر گھومنے لگے۔ نومبر 2008ءمیں اقوام متحدہ کی خیرسگالی کی سفیر ”انجلینا جولی“ نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ دورے کے موقع پر افغان عوام کی حالت زار دیکھ کر جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور زار و قطار رو پڑی ۔ واپسی پر اس نے عالمی اداروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا وہ افغان عوام خصوصاً خواتین اور معصوم بچوں کیلئے خوراک مہیاکریں کیونکہ بھوک کی وجہ سے مہلک بیماریاں اور فاقوں کی وجہ سے اموات واقع ہورہی ہیں۔ جو بھی افغانستان گیا وہ افغان عوام کی خستہ حالی پر افسوس اور دُکھ کا اظہار کرتا ہی لوٹا۔

کتنی عجیب بات ہے پوری دنیا میں ایک طرف تو مصنوعی بھوک پیدا کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف بھوکے ننگے لوگ ہیں، ان کو بھوک کی وجہ سے جان کے لالے پڑے ہیں۔ایتھوپیا کے صحراؤں سے لیکر افغانستان کے پہاڑوں تک ایک طرف تو زندہ اور حقیقی بھوک ہے جس کی وجہ سے روزانہ ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف مصنوعی بھوک اور وہ لذتیں ہیں جن کو پورا کرنے کی خواہش پیدا کی جارہی ہے۔

یہ بناوٹی اور مصنوعی بھوک، بھوک نہیں، بھوک کا دھوکا ہے۔ ”ہلکی پھلکی بھوک“ ہر وقت کھاتے رہنے کی بیماری جو اشتہارات کی کوکھ سے گدھوں کے روپ میں جنم لیتی ہے، دنیا کے متمول لوگوں کے گھروں کا چکر لگاتی رہتی ہے۔آج نئی تہذیب کا ہر فرد ہر وقت کھانے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ہر وقت کھانے پینے کا وبال موٹاپے، شوگر، ڈپریشن، بے خوابی، تفکرات، طرح طرح کے نفسیاتی اور روحانی امراض کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ مصنوعی بھوک پیدا کرکے کھانے والے اور لذتوں، خواہشوں کے پجاریوں کو خدا نے ایسی ایسی جان لیوا بیماریوں میں جکڑا ہے کہ وہ وقت سے پہلے ہی موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

افسوس! آج ہم یہ بھول گئے کہ مستقل کھاتے رہنے والا ہمیشہ بھوکا رہتا ہے، جو بھوک کو قبول کرلے اس کی بھوک مٹ جاتی ہے، نفس قانع ہوجاتا ہے۔ لذت، خواہش اور چٹخارے میں مبتلا قوم کے معدے ہمیشہ خراب رہتے ہیں۔ آج کا مسلمان فاسٹ فوڈ، جنک فوڈ، چاکلیٹ، سگریٹ، ہوٹل، ریسٹورنٹ، نائٹ کلب اور جنسی ادویہ کے اشتہاروں سے رنگینیاں چراکر اپنی عمر کے نقشوں میں رنگ بھرنا چاہتا ہے۔ وہ ان اشتہاروں کو ترقی کی علامتیں سمجھ کر ان پر لکھی عبارتوں سے اپنی زندگی کیلئے معانی اَخذ کررہا ہے، اور غریبوں کے گھروں میں اُتری ہوئی حقیقی بھوک رکھنے والوں کو بھول چکا ہے۔

ہم دو انتہاؤں کے درمیان جی رہے ہیں، ایک طرف تو زیادہ کھانے کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں تو دوسری طرف فاقوں کی وجہ سے زندگی ہار رہے ہیں۔ایک طرف کھرب پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف غربت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ اس وقت یہ دنیا دو انتہائوں پر ہے۔ ایک طرف ارب کھرب پتیوں کی خون آشام ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں تو دوسری طرف بھوکی ننگی دکھوں کی ماری آبادیاں۔

تازہ ترین