• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اِس بات کا خیال رکھنا کہ کہیں اسکول تمہاری تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے ۔‘‘یہ قول عموماً مارک ٹوئن سے منسوب کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک لکھاری گرانٹ ایلن کا ہے ۔یہ قول سُن کر اگر کوئی سمجھے کہ گرانٹ ایلن بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے خلاف تھاتو اُس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔اِس سے مراد یہ ہے کہ محض اسکول یا کالج کی ڈگری کافی نہیں ہوتی ، زندگی میں عملی تجربات وہ کچھ سکھا دیتے ہیں جو تعلیمی اداروں میں نہیں سکھایا جا سکتا ۔گزشتہ ہفتے میں نے کالم لکھا کہ ’’کیا واقعی کالج میں پڑھنا ضروری ہے ؟‘‘ تو اِس سے کچھ لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ میں کالج کی تعلیم کے خلاف ہوں اور چاہتا ہوں کہ ماں باپ بچے کو میٹرک کے بعد دکان پر بٹھا دیں تاکہ وہ کاروبار سیکھےکیونکہ آج کل کالج میں پڑھنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ حالانکہ میرامدّعا یہ تھا کہ غریب اور متوسط طبقہ جس طرح اپنی زندگی کو اذیت بناکر اِس امید پرمہنگے کالجوں کی فیسیں ادا کر رہا ہےکہ مستقبل میں اُن کا بچہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کرکے اُن کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا تو ایسا نہیں ہوگا، اِس لیے وہ خود پر یہ ظلم کرنا بند کریں۔اگر کسی کو اِس بات سے اختلاف ہے تو وہ پچیس کروڑ آبادی کے اِس ملک پر نظر دوڑائے اور بتائے کہ پسماندہ طبقے کے نوجوان ڈگریاں لے کرکیاکرتے پھر رہے ہیں ؟ کوئی پچاس ہزار کی نوکری کر رہا ہے تو کوئی پینسٹھ ہزار کی ، اور نوکری بھی ایسی کہ دو ماہ بعد مالک پوچھتا ہے کہ برخوردار ہمارے لیےکیا بزنس لائے ہو ، اگر انہیں لائے تو گھر بیٹھو۔ وہی داتا دربار والا لطیفہ یاد آیا جس میں ایک نوجوان نوکری کا اشتہار دیکھ کر انٹرویو کیلئےگیا تومالک نے دو چار سوال پوچھ کر اسے نوکری پررکھ لیا ۔نوجوان نے پوچھا کام کیا ہوگا؟تو مالک نے اطمینان سے جواب دیا کہ داتا دربار جا کر دو بندوں کیلئے کھانا لانا ہوگا ،ایک اپنے لیے اور ایک میرے لیے ۔میں اِس سنگدلانہ تبصرے پر معافی چاہتا ہوں مگر حقیقت اِس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ مسئلہ صرف غریب اور متوسط طبقے کاہے، متمول طبقے کے بچے پڑھیں یا نہ پڑھیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا،انہیں دنیا کو دکھانےکیلئے فقط ایک ڈگری چاہیے جو با آسانی مل جاتی ہے،یہ بچے باہر بھی چلے جاتے ہیںاور دو چار سال امریکہ کینیڈا میں گزارنے کے بعد سیدھا باپ کی گدی پر آکربیٹھ جاتے ہیں ، سو، میں اِس طبقے سے مخاطب نہیں ہوں، میرا مقدمہ اُن لوگوں کیلئے ہے جن کیلئےراستے محدود ، مواقع کم اور ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

پہلی بات تو یہ ہےکہ متوسط طبقہ جن چار چار کنال کے کالجوں میں اپنے بچوں کو دو گنا اور تین گنا فیسیں ادا کرکے بھیج رہا ہے ،اُن سے سرکاری کالج اب بھی بہتر ہیں، کم از کم یہاں کالج جیسا ماحول تو ہے ۔لیکن اصل سوال وہیں کا وہیں ہے کہ متوسط طبقے کانوجوان ، خاص طور سے لڑکی، کالج میں پڑھنے کے بعد کیاکرے گا/گی ؟میری رائے میں نوجوانوں کو ایسے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا چاہیے جہاں پیشہ ورانہ مہارت پر مبنی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ جب وہ 14 یا 16 سال کی تعلیم کے بعد فارغ التحصیل ہوں تو اُن کے پاس کوئی ایسا ہنر یا ڈگری ہو جس کی منڈی میں مانگ ہو،اگر کوئی نوجوان کالج سے پروفیشل ڈگری حاصل کرتا ہے تو اُس کیلئے ملازمت کے مواقع نسبتاً زیادہ ہیں ، لیکن یہ نوکری بھی ایپل یا ایمزون میں نہیں ہوگی بلکہ ایسی ہوگی جس سے سفید پوش قسم کی زندگی گزاری جا سکے۔ اسی لیے میری رائے میں نوجوانوں کو کاروبار کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ، مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تعلیم سے منہ موڑ لیں بلکہ صرف مہنگے کالجوں سے جان چھڑائیں ۔

موجودہ حالات میں اگر بچوں کو میٹرک یا کیمبرج کا امتحان دلوانےکے بعد کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروا دیا جائے یا انہیں کسی کاروبار کے ساتھ نتھی کردیا جائے تو وہ کالج کی ڈگری کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی سیکھ پائیں گے۔اِس کاروبار کے ساتھ وہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکتے ہیں،ضروری نہیں کہ وہ کالج میں ہی داخلہ لیں، یونیورسٹی کا امتحان تو پرائیویٹ بھی دیا جا سکتا ہے ، اِس سے وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہوگی۔یہاں لڑکیوں کی بات کرنی زیادہ ضروری ہے جن کیلئے والدین فرض کر لیتے ہیں کہ انہیںبس اِن کی شادی کافیصلہ کرنا ہے۔لڑکیوں کیلئے کاروبار یا پیشہ ورانہ ڈگری حاصل کرنا اور بھی ضروری ہے کیونکہ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب آپ کسی پر انحصار کرتے ہیں تو پھر وہ شخص آپ کا استحصال بھی کرسکتا ہے اور ہمارے معاشرے میں یہی ہوتا ہے لہٰذا لڑکیوں کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مجبوری میں کوئی اُن کا استحصال نہ کرسکے ۔انہیں با اختیار بنانے کا ایک طریقہ آن لائن کاروبار ہے ۔آج کل یہ اِس قدر آسان ہوچکا ہے کہ لوگ اب اِسے مذاق سمجھنے لگے ہیں ،ذاتی مثال دینا اچھانہیں لگتا ، مگر اِس وقت بتانے میں کوئی حرج بھی نہیں ۔ میرے دونوں بیٹے جو آج کل کیمبرج کے امتحانات کے بعد فارغ ہیں ،( اور میرا کوئی ارادہ نہیں کہ انہیں کسی مہنگے پرائیویٹ کالج میں داخل کرواؤں الّا یہ کہ انہیں اسکالر شِپ مل جائے جس کا امکان کم ہے، حالانکہ اصولاً مجھے کہنا چاہیے کہ وہ آئن اسٹائن اور نیوٹن ہیں )، چند دن پہلے میرے پاس آئے اور بتایا کہ انہوں نے دس ہزار روپے کی ’خطیر رقم ‘ سے آن لائن کاروبار شروع کیا ہے جس میں انہوں نے ٹین ایج بچوں کیلئے ٹی شرٹس کے ڈیزائن بنائے ہیں اور کراچی کی ایک کمپنی سے ’معاہدہ‘ کیا ہے کہ جو آرڈرآئے گا وہ کمپنی براہ راست اُس ڈیزائن کی ٹی شرٹ بنا کر گاہک کو بھجوا دے گی۔انہوں نے بڑی خوشی سے مجھے بتایا کہ اب تک آٹھ دس آرڈر آ بھی چکے ہیں ۔میں نہیں جانتاکہ اُن کا یہ کام چلے گا یا نہیں مگر مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ وہ کوئی کام کر رہے ہیں ، اِس سے کچھ دیکھیں گے او ر آئندہ اپنی غلطیوں کو سدھار کر اِس کام کو بہتر کر لیں گے۔میرا سوال خود سے اور آپ سے یہی ہے کہ کیا اگلے چار برس تک دونوں بچوں کی پرائیویٹ کالج کی فیس ادا کروں یا اُن کے اِس ننھے سے کاروبار کی حوصلہ افزائی کروں اور کہوں کہ ساتھ میں پرائیویٹ گریجویشن بھی مکمل کرلینا۔ یہ فیصلہ اب آپ کا ہے کہ بچوں کو بنے بنائے سانچے میں ڈھالنا ہے یا انہیں بدلتے ہوئے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانا ہے....!!!

تازہ ترین