• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد کاشف

جنگوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی کہ خُود انسانی تاریخ ۔ فنِ حرب ، جنگی تدابیر اور ٹیکنالوجی کے پیشِ نظر جنگوں کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ تصوّر امریکی فوجی ماہرین نے 1989ء میں پیش کیا تھا۔ 

ذیل میں جنگوں کے تمام ادوار کی مختصر تفصیل پیش کی جارہی ہے۔

فرسٹ جنریشن آف وار

’’فرسٹ جنریشن آف وار‘‘ کو سمجھنے سے قبل ہمیں 1648ء سے پہلے کے دَور میں جھانکنا ہو گا۔ 1648ء سے پہلے جنگوں کی قیادت عموماً مذہبی رہنما یا قبائلی سردار کیا کرتے تھے اور ان کا بنیادی مقصد کسی مخصوص مذہب یا قبیلے کو کسی علاقے پر حاوی کرنا ہوتا تھا۔ 

اس دَور میں جنگوں میں شریک افراد کو فوجی نہیں کہا جاتا تھا۔ نیز، ان جنگ جوئوں کا کوئی باقاعدہ یونی فارم ہوتاتھا، نہ اُنہیں باقاعدہ عسکری تربیت فراہم کی جاتی اور نہ ہی ان کی تن خواہ کا کوئی تصوّر تھا۔ 1648ءکے بعد جب رومی بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور اس کے نتیجے میں متعدد آزاد ریاستیں وجود میں آئیں، تو ان ریاستوں کو اپنی قومی فوج تشکیل دینے کا اختیار بھی مل گیا۔ 

یہ جنگوں کا پہلا دَور کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں سپاہیوں کا باقاعدہ یونی فارم متعارف کروایا گیا اور ان کی عسکری تربیت اور جنگی ساز و سامان پر خصوصی توجّہ دی گئی، جب کہ فوج کو منظّم کرنے کے لیے فوجی عُہدوں کا باقاعدہ نظام نافذ کیا گیا۔

’’فرسٹ جنریشن آف وار‘‘ کو سب سے پہلے امریکا اور یورپ میں اپنایا گیا اور پھر دُنیا کے دیگر ممالک نے بھی ان کی پیروی کی۔ اس دَور میں دشمن یا حریف کی حوصلہ شکنی کے لیے ذرائع ابلاغ کو جھوٹے پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا اور مخالف کی معیشت تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جعلی کرنسی پھیلائی گئی۔ 

مذکورہ بالا ہتھکنڈے نپولین نے اپنے مخالفین کے خلاف جنگوں میں استعمال کیے اور یہ تمام جنگیں ہی ’’فرسٹ جنریشن آف وار‘‘ کے انداز میں لڑی گئیں۔ چُوں کہ ان جنگوں میں سپاہیوں کی بہت بڑی تعداد شریک ہوتی تھی، تو اس وجہ سے جانی نقصان بھی زیادہ ہوتا تھا۔ 19ویں صدی تک تمام جنگیں اسی انداز میں لڑی جاتی رہیں۔ 

تاہم، جب بندوق اور توپ خانے میں جدّت آئی، تو فرسٹ جنریشن آف وار کے عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ انگلش سِول وار، اینگلو اسپینش وار اور نپولین کی جنگیں فرسٹ جنریشن آف وار ہی کا حصّہ قرار دی جاتی ہیں۔

سیکنڈ جنریشن آف وار

جنگوں کی یہ جنریشن امریکی فوج کی ایجاد ہے، جو 1989ء میں سامنے آئی۔ اس دَور کو مغربی دُنیا کے صنعتی انقلاب سے جوڑا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں بڑے پیمانے پر جدید جنگی سازوسامان تیار کیا جانے لگا۔ ان جنگوں میں زیادہ رینج والی بندوقوں اور توپوں کے استعمال میں اضافہ ہوا اور ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی پہلے سے بڑھ گئی۔

ٹیکنالوجی پر زیادہ توجّہ دینے سے جانی نقصان میں کمی واقع ہوئی۔ نقل و حرکت کے لیے گدھوں، گھوڑوں کی بہ جائے مشینی گاڑیوں پر انحصار کیا جانے لگا اور پہلی بار ’’اِن ڈائریکٹ فائر‘‘ کی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی۔ اِن ڈائریکٹ فائر سے مراد یہ ہے کہ جاسوس کی مدد سے دُور دراز اور آنکھوں سے اوجھل دشمن کا مقام معلوم کرتے ہوئے اُس پر کسی دُور دراز مقام سے گولہ باری کرنا۔

سیکنڈ جنریشن آف وار ہی میں ’’بلیٹس کریگ‘‘ (Blitzkrieg)نامی جنگی طریقہ متعارف کروایا گیا، جس نے اس جنریشن کا خاتمہ کردیا۔ ’’بلیٹس کریگ‘‘ ایک ایسی جنگی حکمتِ عملی ہے کہ جس میں دشمن پر اچانک بھاری بھر کم فوجی لشکر کے ساتھ حملہ کیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ دشمن پر سامنے کی بہ جائے ایک لمبا چکر کاٹ کر پیچھے سے حملہ کیا جاتا ہے، جس سے وہ مکمل طور پر نرغے میں آجاتا ہے۔ 

جرمنی کو اس جنگی طریقے کا مؤجد تسلیم کیا جاتاہے۔ مذکورہ جنگی تیکنیک سے قبل توپ خانہ ساکت ہوا کرتا تھا۔ یعنی دشمن کو نشانہ بنانے کے لیے توپیں مخصوص مقامات پر طویل عرصے تک نصب رہتی تھیں اور توپوں کے ایک جگہ جامد رہنے سے دو مسائل درپیش تھے۔ اوّل، دشمن کو توپوں کے مقام کا پتا چل جاتا اور وہ جوابی حملہ کر کے توپیں تباہ کر دیتا اور دوم یہ کہ ان ساکت و جامد بھاری بھرکم توپوں کی وجہ سے افواج کی پیش قدمی سُست ہوجاتی، کیوں کہ ان وزنی توپوں کو دُور دراز مقامات تک پہنچانا بہ ذات خود ایک بڑا مسئلہ تھا اور اگر راستہ ریگستانی یا پہاڑی ہوتا، تو یہ مسئلہ سنگین صُورت اختیار کر جاتا۔ سیکنڈ جنریشن آف وار کی نمایاں خصوصیات میں خندق کی کھدائی اور کیمو فلاج یونی فارم اور ریڈیو کا استعمال شامل ہے۔ پہلی عالمی جنگ اور ایران، عراق جنگ سیکنڈ جنریشن آف وار کی بڑی مثالیں ہیں۔

تھرڈ جنریشن آف وار

جب جرمن فوج نے پہلی بار فرانس کے خلاف ’’بلیٹس کریگ‘‘ نامی جنگی حربہ استعمال کیا، تو جنگی ماہرین کو فوج کی تیز رفتار نقل و حرکت اور خندق کی جنگی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ جرمنز نے جب فرانس پر قبضہ کیا، تو اُس وقت انہیں ٹینکس اور دیگر فوجی گاڑیوں کی مدد حاصل تھی، جن کی بہ دولت جرمن فوج کی پیش قدمی کی رفتار کئی گُنا بڑھ گئی۔

علاوہ ازیں، اسے فضائیہ کی مدد بھی حاصل تھی اور یوں جرمن فوج کی جنگی صلاحیت میں اضافہ ہو گیا۔ واضح رہے کہ دشمن کے علاقے میں اندر تک تک داخل ہو کر کسی ہدف کو نشانہ بنانا بلیٹس کریگ تیکنیک میں شامل نہیں ہے۔

تھرڈ جنریشن وار میں فوج کی تیز رفتار نقل و حرکت اور بھاری بھر کم ہتھیاروں کی بہ جائے ہلکے ہتھیاروں کی تیاری پر توجّہ دی گئی تاکہ ہتھیاروں کی منتقلی کا عمل آسان ہو سکے۔ تھرڈ جنریشن وار میں ہیلی کاپٹر اور میزائل ٹیکنالوجی نے اہم کردار ادا کیا اور ہیلی کاپٹر کی مدد سے فوجیوں اور جنگی سامان کو ایسے مقام تک پہنچانا آسان ہو گیا کہ جہاں کسی ہوائی جہاز کا لینڈ کرنا ممکن نہ تھا اور اس طرح میزائل ٹیکنالوجی کی مدد سے دُور دراز مقامات پر موجود دشمن کو نشانہ بنانا مزید آسان ہوگیا۔ 

تھرڈ جنریشن آف وار میں ایک سنگین مسئلہ چَین آف کمانڈ کا بھی تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کچھ فوجی کمانڈرز محاذِ جنگ پر موجود ہوتے اور کچھ محاذ سے کوسوں دُور ہیڈ کوارٹر میں بیٹھتے تھے۔ اب ہوتا یہ تھا کہ محاذ پر موجود کمانڈرز کو فوراً ایکشن لینا ہوتا تھا، مگر محاذ سے کوسوں دُور ہیڈکوارٹر میں موجود کمانڈرز احکامات جاری کرنے میں دیر کردیا کرتے تھے، جس سے کارروائی کا مناسب وقت ہاتھ سے نکل جاتا اور اس کا نتیجہ جانی و مالی نقصان یا شکست کی صُورت میں نکلتا۔ اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ محاذ پر موجود کمانڈرز کو زیادہ اختیارات دیے گئے تاکہ وہ بروقت فیصلہ کرسکیں۔ دوسری عالمی جنگ، ویت نام کی جنگ اور جنگِ خلیج تھرڈ جنریشن آف وار کی قابلِ ذکر مثالیں ہیں۔

فورتھ جنریشن آف وار

جنگوں کی اس قسم میں دو ممالک کی افواج کے مابین جنگ لڑائی ہوتی بلکہ کسی مُلک کی فوج، کسی مسلّح گروہ کے خلاف برسرِپیکار ہوتی ہے۔ موجودہ دَور میں فورتھ جنریشن آف وار کی نمایاں مثال پاک فوج بمقابلہ بلوچستان و خیبر پختون خوا میں سرگرم بلوچ علیحدگی پسند اور تحریکِ طالبان اور اسرائیلی فوج بمقابلہ حماس و حزب اللہ ہیں۔ فورتھ جنریشن کی جنگیں طویل عرصے تک جاری رہتی ہیں۔ اس قسم کی جنگوں میں عموماً دہشت گردی اور میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ 

ملیشیاز یا جنگ جُو تنظیمیں دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے دُنیا کو یہ باور کرواتی ہیں کہ فلاں مُلک ہر اعتبار سے غیر محفوظ ہے۔ یوں ایک جانب اس مُلک کے شہری عدم تحفّظ کا شکار ہوجاتے ہیں، دوسری جانب غیر مُلکی سرمایہ کار بھی اس مُلک میں قدم رکھنے سے خوف کھاتے ہیں۔ فورتھ جنریشن آف وار میں میڈیا سے سب سے زیادہ ناجائز فائدہ مسلّح گروہ اٹھاتا ہے اور یہ خود کو مظلوم ثابت کرتا ہے اور جن ممالک میں میڈیا بہت زیادہ آزاد ہوتا ہے، تو وہاں مسلّح گروہوں کے لیے خُود کو مظلوم ثابت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ 

اس ضمن میں پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے کم و بیش سوا لاکھ معصوم شہریوں کا خون بہایا، لیکن بعض سیاسی قائدین اورمذہبی طبقات کی جانب سے اس مسلّح گروہ کی وکالت کی وجہ سے ایک عام پاکستانی طالبان کو دہشت گرد تصوّر نہیں کرتا۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف پاک فوج کے آپریشنز، حماس، اسرائیل جنگ اور داعش کے خلاف کارروائیاں فورتھ جنریشن آف وار کی اہم مثالیں ہیں۔

ففتھ جنریشن آف وار

’’ففتھ جنریشن آف وار‘‘ کی اصطلاح سب سے پہلے امریکی خفیہ ایجینسی، سی آئی اے کے ایک افسر، رابرٹ اسٹیل نے 2003ء میں استعمال کی تھی۔ جنگ کی اس قسم میں افواج براہِ راست ایک دوسرے کے مقابل نہیں آتیں اور نہ ہی توپ، ٹینک یا گولہ بارود کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جنریشن کے دو بنیادی اجزا ہیں۔

ایک زہریلا بیانیہ اور دوسرا دہشت گردی و تخریب کاری۔ ففتھ جنریشن وار میں عوام میں ریاست کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں عوام اپنی ہی ریاست سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور پھر شہری سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، جب کہ آخری مرحلے میں یہ احتجاجی جلسے جلوس فسادات اور بغاوت میں بدل جاتے ہیں۔ 

اس دوران مُلک میں اہم مقامات، خاص طور پر فوجی تنصیبات پر دہشت گردی اور سائبر حملے کیے جاتے ہیں۔ ففتھ جنریشن آف وار کی وجہ سے حکومت کا تختہ الٹ جاتا ہے، مگر ضروری نہیں ہوتا کہ نئی آنے والی حکومت مُلک کو سنبھالنے میں کام یاب ہو جائے۔

ففتھ جنریشن آف وار کی ایک واضح نشانی یہ بھی ہے کہ ایسے لیڈرز سامنے آتے ہیں کہ جو عوام میں قوم پرستی اور مذہبی شدّت پسندی کو ہوا دیتے ہیں اور عوام قوم پرستی اور مذہبی عصبیت ہی کو اپنے مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر پاکستان کے تناظر میں ففتھ جنریشن وار کا جائزہ لیا جائے، تو پاکستان تحریکِ انصاف اور تحریکِ لبیّک، پاکستان جیسی جماعتوں نے جذباتی نعروں اور مذہبی شدّت پسندی کی مدد سے سیاسی قوّت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ترقّی پذیر ممالک کے رہنماؤں کو ففتھ جنریشن وار سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ان ممالک کے رہنما اس جنگ کی شدّت کو سمجھنے میں ناکام رہے، تو ان کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ گرچہ پاکستان کو اس وقت ففتھ جنریشن وار کا سامنا ہے لیکن اچّھی بات یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ 

واضح رہے کہ سوشل میڈیا ففتھ جنریشن وار کا ایک اہم ہتھیار ہے اور اس جنگ کا ہدف نوجوان ہیں۔ لہٰذا، سوشل میڈیا کے ذریعے قوم میں پھیلائی جانے والی تشکیک، مایوسی اور افراتفری کو روکنے کے لیے قوانین تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ اب ’’سکستھ جنریشن وار‘‘ شروع ہو چُکی ہے، جس میں ٹیکنالوجی اور مختلف اتحادوں کے ذریعے دشمن اقوام کو تباہ کرنے کے مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں۔