تحریک تحفظ آئین گرینڈ اپوزیشن الائنس کے اسد قیصر نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ عملی طور پر تجارت بند ہے، فاٹا کے سارے علاقے کی تجارت کا انحصار افغانستان کے ساتھ ہے۔
تحریک تحفظ آئین گرینڈ اپوزیشن الائنس کے قائدین کے ساتھ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر کا مزید کہنا تھا کہ چمن میں اس وقت دھرنا دیا گیا ہے۔ تجارت کی بندش نے قبائلیوں کی شہ رگ توڑ دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ان علاقوں کی تجارت بند ہوگئی ہے۔ چمن میں قبائلی چھ، سات ماہ سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
اسد قیصر نے کہا جتنے بھی دھرنے بیٹھے ہیں ان کے ساتھ با مقصد مذاکرات کیے جائیں۔ افغانستان کے ساتھ بند تجارت کو فوری بحال کیا جائے۔
اسد قیصر نے کہا ہمارے مطالبات پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو با اختیار ہو۔ بجٹ پیش ہونے سے پہلے ہم قبائلی اضلاع کے ایشو بتانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا قبائلی اضلاع کو یہ کہا گیا تھا کہ ان کو بجٹ میں تین فیصد دیا جائے گا۔ قبائلی اضلاع میں تعیلم کےلیے بھی بجٹ مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بجٹ میں فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگایا گیا تو لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کےذمہ دار نہیں ہوں گے۔
اسد قیصر نے کہا بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو ترجیح دیں، بحالی کے اقدامات کیے جائیں، وعدہ کیا گیا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت حصہ دیا جائے گا۔
انھوں نے کہا ضم شدہ اضلاع کی ترقی کےلیے خطیر رقم دینے کا کہا گیا تھا۔ اس وقت چمن میں دھرنا جاری ہے اسی طرح غلام خان میں بھی دھرنا جاری ہے۔
اسد قیصر نے کہا ان دھرنوں کے شرکاء سے کوئی بات کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ جب کمٹمنٹ کی جاتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ چھ چھ مہینے دھرنے پر بیٹھے لوگوں سے کوئی بات کرنے کو کوئی تیار نہیں۔
انھوں نے کہا وفاقی حکومت لگتا ایسا ہے کہ کوئی انتقام لے رہی ہے۔ آپ وہ ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ لوگ بغاوت پر اتر آئیں۔ جتنے دھرنے بیٹھے ہیں ان سے مذاکرات کیے جائیں۔