سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی نے مزید دستاویزات جمع کروانے ہیں تو ایک ہفتے میں جمع کروا دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔ اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی کے ویڈیو لنک پر سپریم کورٹ میں پیشی کے انتظامات کیے گئے۔ بانی پی ٹی آئی کو بیرک سے کورٹ روم منتقل کیا گیا۔
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہوجائے گی لیکن ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کچھ بھی ہوگیا تو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا، ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔
سماعت کے آغاز میں وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کروادیں، کیا آپ فیصلہ سپورٹ کر رہے ہیں؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کی بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سوال کیا کہ نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999ء میں آیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ 1999ء میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں۔
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مؤکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
بانی پی ٹی آئی کے سابق وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا، دبئی لیکس اور جعلی اکاؤنٹس ہمارے سامنے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو دلائل دینا چاہتے ہیں وہ دیں، باقی نوٹ کروا دیں، ہم پڑھ لیں گے، آپ بتائیں آپ کو کتنا وقت درکار ہو گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں دلائل میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ اور جن اداروں، شخصیات پر نیب قانون لاگو نہیں ہوتا اس متعلق ترمیم نہیں کی گئی، پارلیمنٹ موجود تھی، قانون سازی کر سکتی تھی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 1999ء سے 2018ء تک تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں رہیں، کسی سیاسی جماعت نے نیب قوانین میں ایسی ترمیم نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیگر جماعتیں فریق نہیں، ترامیم پی ٹی آئی نے چیلنج کیں ان سے پوچھیں گے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چیلنج کی گئی نیب ترامیم مخصوص تناظر میں کی گئیں، کرپشن عوام کے بنیادی حقوق متاثر کرتی ہے، عوام کا پیسہ لوٹا جانا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، نیب قوانین کا اطلاق پبلک آفس ہولڈر پر ہوتا ہے، پبلک آفس ہولڈرز صرف سیاستدان نہیں ہوتے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نیب کی کارروائی کے لیے عوام کا اختیار کتنا ہے، میری سمجھ کے مطابق تو کوئی بھی شہری شکایت درج کر سکتا ہے، یہ اختیار نیب کا ہے پتہ کرے کرپشن ہوئی یا نہیں؟ جسٹس جمال مندو خیل
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا، غیر منتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں، کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے، کیا آپ 500 ملین سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندگان کے تعینات کردہ افراد بھی پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہیں، فیصلے منتخب نمائندے کرتے ہیں، عمل درآمد بیوروکریسی، اتفاق نہیں کرتا کہ سیاستدان کرپشن نہیں کرتے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ رولز کے مطابق پرنسپل اکاؤنٹنٹ افسر ہی ذمے دار ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی سیکریٹری کرپشن سے انکار کرے تو سیاستدان کیا کر سکتا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر سیکریٹری احکامات پر عمل کرے تو حکم دینے والا وزیر کیسے کرپٹ نہیں ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی، غیرقانونی حکم ماننے والا خود ذمے دار ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کرنے کی ضرورت ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سامنے آنے والی جائیدادیں ثبوت ہیں کہ کرپشن ہو رہی ہے، نیب ترامیم اس لیے کی گئیں کہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے، بطور سینئر وکیل آپ کی کیا رائے ہے، جسٹس منصور علی شاہ کی رائے درست تھی یا دو رکنی بینچ کا فیصلہ۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میری رائے میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ درست نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف کیس کو پہلے لگایا جانا چاہیے تھا، باہر جاکر کیمرے پر گالیاں دیتے ہیں، گالیاں دینا تو آسان کام ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر جلد سماعت کی درخواست دی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون آیا لیکن وہ پھر بھی چیلنج ہوا، حکم امتناع دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا، عدالت معطل نہیں ختم کرسکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ معزز چیف جسٹس کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پارلیمان کا وقار اہم ہے، قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، اگر میں نے غلطی کی تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، دنیا کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر اسی وجہ سے گراوٹ کا شکار ہے، اس طرح کے حکم امتناع سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، میری رائے ہے کہ قانون معطل نہیں ہوسکتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب چلیں آپ میرٹ پر دلائل دے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا؟ وجہ بتائیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں طے ہو چکا پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہائی کورٹ سے نوٹس اٹارنی جنرل کو بھی ہوا تھا، اٹارنی جنرل نے کیوں وہاں کوشش نہیں کی کیس دوبارہ لگے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اس وقت گرمی کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نے عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا، اُس وقت بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا، باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے، اس کیس میں جے آئی ٹی تھی، جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا؟ اس کیس میں آپ وکیل تھے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نہ ہوسکا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کسی نے گھر بنایا اس کے پاس رسید نہیں ہوگی، کیا رسید مانگنا بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جو مرکزی کیس میں کلائنٹ تھے اگر انہیں آج کہہ دیں تمام اثاثوں کا جواب دیں تو آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا، خواجہ صاحب کون کون سی نیب ترامیم کو چیلنج کیا تھا؟ وہ لکھوا دیں، آپ نے سیکشن 19 اے فائیو میں ترمیم کو چیلنج کیا تھا، آپ نے سیکشن 14 کے حذف کرنے کو چیلنج کیا تھا اور کیا تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 2 میں ترامیم کا اطلاق ماضی سے کرنے کو چیلنج کیا تھا، سیکشن 4، 16 ،21 جی اور سیکشن 25 ڈی میں ترمیم کو چیلنج کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کون کون سی ترامیم کو کالعدم کیا گیا، بتا دیں۔
خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں ترامیم کی تفصیلات لکھوا دیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سیکشن 19 اے فائیو میں ترمیم کو کس بنیادی حق کے متاثر ہونے پر کالعدم کیا گیا؟ نیب کے قیام کا مقصد ہی سیاسی انجینئرنگ تھا، خواجہ حارث! آپ اپنے موکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں، نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو نقصان آپ کے موکل کا ہوگا، عمران خان اس وقت زیر عتاب ہیں، وہ نیب سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مشکلات کے باوجود عمران خان آج بھی ترامیم کا کیس لڑ رہے ہیں، وہ جانتے تھے ترامیم کالعدم ہونے سے ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عمران خان کو اپنے اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں تو مشکل پڑ جائے گی، کیا یہ بلیک میلنگ نہیں کہ کسی کو بھی اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھ سے کوئی کہے اپنے گھر کی رسیدیں دو تو میں نہیں دے سکوں گا، جائز اثاثوں کا حساب دینا بھی ناممکن ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نے کہا کہ کیا اب پانی پی ٹی آئی کو کہہ دیا جائے پرانے قانون کے تحت اپنے اثاثے ثابت کریں، آپ عوامی نمائندوں کے لیے مشکلات بنا رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ احتساب کا اتنا ہی سخت مؤقف تھا تو ٹیکس ایمنسٹی کیوں دیتے رہے؟ برطانیہ میں برسوں سے جمہوریت ہے وہاں ٹیکس ایمنسٹی کیوں نہیں دی جاتی؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ معاشی فیصلے ہوتے ہیں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے الگ گوشوارے بنا رکھے ہیں، انکم ٹیکس کی تفصیل کیوں نہیں مانگی جاتی اس طرف کیوں نہیں جاتے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کو آئین سے بتانا ہوگا، ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ ترامیم سے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے گولڈ رولیکس پہنی ہو، تفیشی پوچھے کہاں سے لی تو سارا بوجھ آپ پر آجائے گا، تفتیشی کا کام تو آسان ہو گیا، ایمینسٹی اسکیم دینا کیا نیب قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کارروائی ہر معاملے پر نیب ہی کرے؟ نیب پر اتنا اعتبار کیوں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اثاثوں کی سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا، چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی، آپ چاہتے ہیں اثاثوں کی سیکشن سے کرپشن کی شرط نکال دیں؟ صرف آمدن اور اثاثوں میں فرق ہونا کافی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کسی وزیرِ اعظم سے نہیں پوچھے گا یہ گھر کہاں سے لیا؟ وہ کہے بھائی نے تحفہ دیا تو کیا ہوگا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسے میں اس کے بھائی سے پوچھا جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس طرح تو یہ گھومتا رہے گا۔
جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ بانی پی ٹی آئی کو بھی ڈریکونین قوانین سے ایکسپوز کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص کرپشن کیس میں 10 کروڑ وکیل کو کرپشن کی رقم سے فیس دے تو کیا ہوگا؟ کیا ایسے میں وکیل کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پوری فیملی کو پتہ ہوتا ہے ہمارے سربراہ کی آمدن کتنی ہے اور خرچہ کتنا کر رہا ہے، کیا ایسے میں تمام فیملی کے خلاف کارروائی ہو گی، میں وکیلوں کو تھوڑا ریسکیو کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی، لسٹ میں بتایا گیا تھا 2019ء میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 2019ء کی ترامیم پر بعد میں بات کروں گا۔نیب ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں سے تمام ریفرنس واپس ہوگئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایمنیسٹی جاری کرکے یہی کام کریں تو ٹھیک کیسے ہوگیا؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایمنیسٹی مختلف چیز ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمنیسٹی انتظامی فیصلہ ہے، ترامیم پارلیمنٹ نے کی ہیں۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایمنیسٹی سے فوجداری کارروائی ختم نہیں ہوتی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت جرم ختم کر سکتی ہے لیکن پارلیمنٹ نہیں جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رضاکارانہ رقم واپسی سے اربوں کی جائیداد 10 کروڑ میں جائز ہوجاتی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ رضاکارانہ رقم واپسی پر عملدرآمد سپریم کورٹ نے روک رکھا ہے۔ رضاکارانہ رقم واپسی اور پلی بارگین کی رقم کا تعین چیئرمین نیب کرتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ تمام مقدمات متعلقہ فورم پر چلے جائیں تو کوئی اعتراض ہے؟ جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کالعدم کیے بغیر مقدمات منتقل نہیں ہوسکتے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب کی 2023 ترامیم مقدمات منتقلی سے متعلق تھیں، سپریم کورٹ میں دوران مقدمہ منتقلی سے متعلق نیب ترمیم کا جائزہ نہیں لیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو۔ خواجہ صاحب آپ کا ریکارڈ ہے، کیس ترپن سماعتوں میں سنا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم سے ایمنیسٹی اسکیم پر نیب کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ ایمنسٹی اسکیم سے کس نے فائدہ لیا؟ کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ جعلی اکاؤنٹس کا سارا معاملہ اسی میں شامل تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی اکاؤنٹ جعلی ہوگا تو بینک اسے بند کردے گا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سب ہوتا ہی بینک کی ملی بھگت کے ساتھ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک گورنر نیب کے سزا یافتہ تھے، ان صاحب کو گورنر بنانے کےلیے نیب کو ادائیگی بھی حکومت نے خود کی تھی، یہ خبر ہے۔ وہ صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر کہتے رہے میں سزا یافتہ ہوں تو کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ ہے کہ سیاسی قیادت نے کچھ نہیں سیکھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں عوام کے لیے دوبارہ اکٹھا بیٹھ کر اچھا سا قانون بنا دیں۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس قانون سازی کا تحریک انصاف نے بائیکاٹ کردیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نائیک صاحب آپ کے لیڈر تو پھانسی ہی لگ گئے تھے، نائیک صاحب آپ کو بھی معلوم ہے، ہمیں بھی معلوم ہے سب کیسے ہوتا ہے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارے صدر مملکت نے اب بھی سب کو اکٹھا بیٹھنے کی دعوت دی۔
سماعت کے دوران خواجہ حارث نے ایک بار پھر جعلی اکاؤنٹس کیس کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں روک دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے جعلی اکاؤنٹس کیس کی اپیل ہمارے پاس آئے، کسی کے حقوق متاثر ہوسکتے ہیں، کیس پر بات نہ کریں۔ ہمیں بتا دیں ترامیم میں غیر آئینی کیا ہوا، جعلی اکاؤنٹس کا معاملہ چلا تو اسٹیٹ بینک سمیت بہت کچھ درمیان میں آجائے گا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا برطانیہ میں نیب جیسا ادارہ ہے؟ پھر نیب پر آپ کو اتنا اعتماد کیوں ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے۔ مجھے نیب پر اعتماد نہیں، قانون کی بات کر رہا ہوں۔ دوسرے خلیفہ اسلام سے ان کے کُرتے کا سوال پوچھا گیا تھا جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہمارے خلیفہ سے جس نے پوچھا تھا؟ عام آدمی نے پوچھا تھا ناں؟ عام آدمی آج بھی پوچھ سکتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عام آدمی تو بیچارا کمزور ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ عوام کی طاقت اور ووٹر کی طاقت کو کمزور کیوں کہہ رہے ہیں؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 9 اے 5 کو ترمیم کے بعد جرم کی تعریف سے ہی باہر کردیا گیا جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جسٹس منصور نے اپنے نوٹ میں لکھا کیس دیگر فورمز پر جائیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ماضی میں نیب کیس میں ضمانت کا حق نہ دینے والے سپریم کورٹ فیصلے کا حوالہ دیا اور اسفتسار کیا کہ 2017 سے 2020 تک اس عدالت کا نیب سے متعلق کیا فیصلہ تھا؟ جو حقیقت ہے، وہ حقیقت ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو کسی نے منع نہیں کیا کہ نیب قوانین کو سخت یا نرم نہ کریں۔ کل کو کوئی پارلیمنٹ نیب قوانین کو سخت بھی کرسکتی ہے۔ آپ کی بات مان کر ہم ترامیم ختم کریں، کل پارلمنٹ نیب قانون ہی ختم کردے تو کیا ہوگا؟ 1999 میں مارشل لاء نہ ہوتا تو نیب قانون کا وجود بھی آج نہ ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ نیب آرڈیننس 1999 سے پہلے احتساب ایکٹ موجود تھا، ایسا ہی تھا؟ احتساب ایکٹ کا مقصد بھی سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہی تھا۔
سپریم کورٹ نے وکیل خواجہ حارث کو 7 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان دلائل کےلیے آئے تو پوچھیں گے نیب سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ نیب نے آج تک تمام بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیب سے پہلے احتساب ایکٹ تھا وہ بھی ایسا ہی قانون تھا۔ احتساب ایکٹ کو بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمان منشیات کا قانون ختم کر سکتی ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ پارلیمان کچھ قوانین بنا نہیں سکتی نہ ہی کچھ کو ختم کر سکتی ہے جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان سپریم ہے، وہ قانون بنا سکتی ہے ختم بھی کر سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری نظر میں سپریم آئین ہے جس کے سب تابع ہیں۔ سپریم کا لفظ آئین میں صرف سپریم کورٹ کےلیے استعمال ہوا ہے۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ ایسے قوانین نہیں بنا سکتی جو عوامی اعتماد ختم کرے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ نیب کے ادارے میں لوگ خود کرپشن کریں، کون دیکھے گا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ادارے پر ادارہ تو نہیں بٹھایا جا سکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی پر تو آپ کو بھروسہ کرنا ہوگا۔ مدت سے عدالتی فیصلوں نے پارلیمنٹ کے اختیار کی نفی نہیں کی۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے ساتھ ہی نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت میں وقفہ کردیا۔ مختصر وقفے کے بعد بانی پی ٹی آئی اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی جہاں ویڈیو لنک کے ذریعے بانی پی ٹی آئی بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں؟ کیا آپ کیس سے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میں آپ کو سن سکتا ہوں۔
بانی پی ٹی آئی نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک چیز سمجھ نہیں آئی، آپ نے لکھا میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کون سی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی؟
بانی پی ٹی آئی انگریزی میں بات کر رہے تھے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اردو میں میں بات کریں تو بہت ہوگا جس کے بعد بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے تکلیف ہوئی، کہا گیا میں غیرذمہ دار کیریکٹر ہوں۔ کہا گیا میں غیرذمہ دار کیریکٹر ہوں جس کے باعث براہ راست نشر نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے، آپ نظر ثانی دائر کرسکتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتا ہوں جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے کیس پر رہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا۔ مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفے کی قیمت کم لگائی۔ پونے دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ حکومت اوراپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تھرڈ امپائر تعینات کرتا ہے، میں کہتا ہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔
بانی پی ٹی آئی نے یہ بھی کہا کہ نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے، نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ برطانیہ میں جمہوری نظام اخلاقیات، قانون کی بالادستی، احتساب پر ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ جس پر بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ فارم 47 والے ترمیم نہیں کرسکتے۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پھر اسی طرف جارہے جو کیسز زیر التوا ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے۔ عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہے گا؟ اس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جیل میں جا کر تو مزید میچیورٹی آئی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ 27 سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا۔ غریب ملکوں کے 7 ہزار ارب ڈالر باہر پڑے ہیں، اس کو روکنا ہوگا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں، نیب کو بہتر ہونا چاہیے۔ کرپشن کے خلاف ایک مخصوص ادارے کی ضرورت ہے۔
جسٹس اطہر نے بانی پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کا معاملہ یاد کروا دیا۔
"نیب ترامیم کی بحالی سے میری آسانی لیکن ملک کا دیوالیہ ہوجائے گا"
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں جیل میں ہی ہوں، نیب ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہوجائے گی لیکن ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا۔ دبئی لیکس میں بھی نام آچکے، پیسے ملک سے باہر جا رہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کر رہی ہیں۔ حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں۔ جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ بھارت میں کیجریوال کو آزاد کرکے، سزا معطل کرکے انتخابات لڑنے دیا گیا، جبکہ مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کردیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ تو سیاسی نظام کس نے بنانا تھا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کچھ بھی ہوگیا تو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا، ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا مگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روک دیا اور کہا کہ سائفر کیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں زیرالتوا کیس کی بات نہیں کر رہا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارا یہی خدشہ تھا کہ زیرالتوا کیس پر بات نہ کردیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالف نہیں کی؟ جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ یہی وجہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے۔ شرح نمو 6 اعشاریہ 2 پر تھی، حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی۔ پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خان صاحب آپ دو مختلف باتیں کر رہے ہیں۔ ایک طرف آپ احتساب کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایمنسٹی دیتے ہیں جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم نے حکومت میں آکر بلیک اکانومی کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے ایمنسٹی دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کریں، ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔