وزیر اعظم شہباز شریف کا دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد یہ پہلا دورہ چین دونوں ملکوں کے مابین حکومتی اور کاروباری سطح پر باہمی تعاون کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے جس کا مقصد توانائی اور زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے اور اس دورے کے دوران خصوصی اقتصادی زونز کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم کے اس دورے کی وجہ سے ہی وفاقی بجٹ پیش کرنے میں تاخیر کی جارہی ہے اور امید ہے کہ شہباز شریف کی وطن واپسی پر 10 جون یا اس کے بعد وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ایک طرف حکومت معیشت کی بہتری کیلئے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے رہی ہے تو دوسری جانب یہ خبر منظرعام پر آئی ہے کہ پاکستان کے مقامی قرضوں میں 4 ہزار 622 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ مارچ تک مقامی قرض بڑھ کر 43 ہزار 432 ارب روپے ہوگیا۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے 6 فیصد بڑھ کر 61 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ رواں مالی سال کے آغاز پر پاکستان پر مقامی قرضوں کا حجم 38 ہزار 809 ارب روپے تھا۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ رواں مالی سال بیرونی قرضے 89 ارب روپے کم ہو کر 21 ہزار 941 ارب روپے ہو گئے جبکہ حکومت کے ذمے بیرونی واجبات 6 فیصد بڑھ کر 3 ہزار 284 ارب روپے پر پہنچ گئے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ڈیل سے مقامی و بیرونی قرضوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایسے ہی دیگر اداروں پر انحصار کر کے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اگر ماضی میں بھی قرضے مانگنے کی بجائے دوست ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دی جاتی تو آج ملک اس حال میں نہ ہوتا۔ حد تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ناروا شرائط مان کر عوام پر بوجھ اس قدر بڑھایا جاچکا ہے کہ اب لوگ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی بدگمان دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنا قبلہ درست کر ے اور مسلسل آئی ایم ایف کے در پر کشکول لے کر کھڑے ہونے کی بجائے ان دوست ممالک کے ساتھ معاملات بہتر بنائے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔سی پیک منصوبے کے تحت چین پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کررہا ہے۔ دونوں دوست ممالک کے مابین زراعت کے شعبے میں تعاون کا منصوبہ ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔ لیکن مقامی اور بیرونی قرضوں کا حجم بڑھنا اقتصادی ماہرین اور پالیسی سازوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ معاشی استحکام کیلئے ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے دیرینہ اور معاون دوست چین کو بھی مطمئن کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس بات پر ساری توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ چین اور متحدہ عرب امارات سمیت ان تمام دوست ممالک کو سرمایہ کاری کیلئے بہترین ماحول فراہم کیا جائے جو اس مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس موقع پر اگر ہم نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی اہمیت کو نہ سمجھا تو آئندہ ہمارے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے ریاست مزید کمزور ہوگی۔
پاک چین تعلقات ایک دوسرے کی سلامتی ،استحکام اور خود مختاری کیلئے بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔دونوں ممالک کے مفادات ہی مشترکہ نہیں بلکہ دونوں کو لاحق خطرات اور دشمن بھی ایک ہی ہے، جس سے نمٹنے کی خاطر دونوں ممالک کو ایک جیسے سنگین خطرات کا سامنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات دفاعی صنعتوں سے لے کر انٹیلی جنس ،دفاعی حکمت عملی اور تجارت سے آگے بڑھ کر باہمی تزویراتی مفادات تک محیط ہوچکے ہیں ۔چین نے اجتماعی ترقی کے ایک منفرد ماڈل پر کام شروع کیا تو یہ اس کے اعتبار کی انتہاہے کہ پائلٹ پروجیکٹ کے طور پرپا کستان کا انتخاب کیا ۔دنیا بھر کی مخالفت امریکہ بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے ذریعے سے چین کو پاکستان سے الگ کرنے کی کوشش کے باوجود ،چین بے شمار قیمتی جانوں کی قربانی کے باوجود آج بھی پوری طرح سے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے ،لاشیں اٹھا کر،الزامات برداشت کر کے بھی ساتھ دینے والے ممالک ہی حقیقی دوست ہوا کرتے ہیں ۔المیہ البتہ یہ رہا ہے کہ ہماری بیورو کریسی اور سیاست میں موجود بعض عناصر کے سبب سی پیک اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔طے شدہ شیڈول میں شامل تھا کہ 2020تک پاکستان میں 8خصوصی اقتصادی زون تعمیر ہوں گے اور اگلے 2برس میں چین سے انڈسٹری یہاں منتقل کردی جائے گی،جس کی برآمدات پاکستان کی معاشی ترقی میں کردارادا کریں گی بدقسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا ،ہماری حکومت کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے اقتصادی زون مکمل نہ ہوئے اور یہاں منتقلی کیلئے تیار صنعتیں مایوسی کے عالم میں ویت نام منتقل کر دی گئیں جس کا نتیجہ پاکستان کے سر پر چینی قرضوں کے انبار کی شکل میں سامنے آیا۔اب جبکہ حکومت تبدیل ہو چکی ،اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مل کر ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کی کوشش میں ہیں ،سی پیک پر ہر طرح کی رکاوٹ دور کرنے کو تیار ہیں ،چین کو چاہئے کہ وہ پالیسی پر نظر ثانی کرے اور وعدے کے مطابق اپنی انڈسٹری پاکستان منتقل کرے۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ اپنے دورے کے دوران چینی حکام اور سرمایہ کاروں کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ پاکستان منتقل کریں،اس حوالے سے اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم دورےسے پہلے سرمائے کے قانونی تحفظ کا بل اسمبلی سے پاس کروا کے جاتے،لیکن اب بھی وہ میزبان قیادت کو اس پر یقین دہانی کراسکتے ہیں ،چین کو یہ باور کروانا چاہئے کہ سی پیک کی کامیابی چین کی کامیابی ہے ،اگر اس کی وجہ سے پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے تو اس کا عالمی سطح پر پیغام جائے گا کہ چین کا ماڈل کامیاب نہیں ہوسکا ،دشمن کی خواہش یہی ہے لہٰذا چین کو بھی اس معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،پاکستان کو قرض کی دلدل سے نکالنے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں تعاون کرنا چاہئے اسی میں دونوں کا مفاد ہے۔