بکر ا عید بکروں کے سر پر پہنچی ہوئی ہے۔اوپر سے بجٹ نے بکروں کی چیخیں نکال دی ہیں۔گھاس کے بڑے مسائل ہیں ۔مل ہی نہیں رہی ، کہیں ملتی تھاتو چوبِ خشک کی طرح بکروں کے جبڑوں کا امتحان لینے لگتی ہے ۔آدھے سے زیادہ بکروں کے دانت ٹوٹ چکے ہیں اورعیب والے بکروں کی قربانی جائز ہی نہیں ۔میں نے گذشتہ رات خواب میں پطرس بخاری سے پوچھا کہ ’’بخاری صاحب! ہم میں اور بکروں میں کیا فرق ہے ۔‘‘بولے۔’’بھائی پہلے تو ہوتا تھا اب پتہ نہیں ہے ‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ میں آپ کوبتاتا ہوں ‘‘ کہنے لگے۔ ’بتائویار‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’کوئی فرق نہیں بخاری صاحب کوئی فرق نہیں۔اب ہم میں اور بکروں میں فرق نہیں رہا۔اس بجٹ کے بعد تو بالکل ہی کوئی فرق نہیں رہا۔ممکن ہے آپ میں اور بکرے میں کوئی فرق رہ گیا ہو مگر مجھ میں اور بکرےمیں توکوئی فرق نہیں رہا۔ ہم سارے پاکستانی مسلسل جگالی کررہے ہیں۔منہ ہلاتے جارہے ہیں اور پان بھی منہ میں نہیں ۔میری تو دم بھی نکل آئی ہے ۔آپ گرمی سےمیری نکلی ہوئی زبان کو میری دم ہی سمجھیں ۔وہ بھی ایک کھونٹے سے باندھے جاتے ہیں ، مجھےبھی ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔اپنی رسی کھولنے کی کوشش کروں تو باڑے میں یعنی جیل میں جمع کرادیا جاتا ہوں ۔کل عطاالحق قاسمی سے بات ہوئی ۔ کہہ رہے تھے کہ’’سب سرفروش بکرےکوئے یار سے نکل کر سوئے دار چلے جائیں گے اور جن کے نصیبوں میں عید قربان پر بھی قربان ہونا نہیں ہو گا ، وہ سر نیہواڑے دوبارہ ریوڑ کا حصہ بن جائیں گے۔ ان میں سے جو سہل کوش ہونگے ۔ اپنی جان کو ہر چیز سے عزیز رکھتے ہونگے، وہ اپنی جان بچانے کیلئےاپنے جیسے بکروں کی جماعت بنا لیں گے اور اس کا تاحیات صدربننے کی کوشش کر یں گے ۔
بخاری صاحب میری اس گفتگوکے دوران سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگاتے رہے اور بڑی سنجیدگی سے بولے ’’ تم سگریٹ پیتے ہو نا ‘‘ ۔ میں نے کہا ’’ پیتا تھا اس بجٹ کے بعد پتہ نہیں پی سکوں کا یا نہیں مگر میری بات سے سگریٹ کا کیا تعلق ہے‘‘۔ہنس کر بولے ۔ بکرے سگریٹ نہیں پیتے سو ثابت ہوا کہ تم بکرے نہیں ہو‘‘۔میں نے کہا ’’حوصلہ رکھیں بخاری صاحب ! بکرے جلد سگریٹ پینا شروع کردیں گے بلکہ تمباکو کے کھیتوں میں اب صرف وہی چرا کریں گے ‘‘۔
مگر بخاری صاحب خوکو بکرا سمجھنے پر تیار نہیں تھے ۔ بولے ۔’’ تم عدالت جاتے ہو ، بکرے عدالت نہیں جاتے ۔تم پریس کانفرنسیں کرتے ہو ،بکرے پریس کانفرنس نہیں کرتے ۔تم بہروپ بدلتے ہو ، بکرے نہیں بدلے، کبھی اپنے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔ ہم بکرے نہیں ہوسکتے ۔ بکرے کسی کی گھاس چوری نہیں کرتے ۔کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ نہیں کرتے ۔کسی سے جلتے نہیں۔کسی کی مقبولیت سے حسد نہیں کرتے۔ تم بکرے نہیں ہو۔بکرا تو بہت معصوم جانور ہے ۔تم چالاک ہو ، زیرک ہو ،فریب کار ہو ،اور اپنی انہی صلاحیتوں کے بل بوتے پر خود کو دانشور کہتے ہیں ۔حالانکہ دانش تمہیں چھو کر نہیں گزری ۔دانش تو بکرے کے پاس ہے کہ اس نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا‘‘۔میں نے کہا ۔’’ نہیں بخاری صاحب ہم سارے عوام بھیڑ بکریاں ہی ہیں ،ہم نے بھی کبھی کسی کابرا نہیں چاہا، نہ کبھی زور زبردستی سے کام لیا ہے ۔وہ اور لوگ ہیں جو بکرے نہیں ہیں ۔ان میں سے کچھ روباہیں ہیں ، روباہ یعنی لومڑی،وہ واقعتاً بہت چالاک ہیں ۔کچھ شیر اور چیتے ہیں جو جسموں کو پھاڑ کر کھاتے ہیں ، کچھ بھیڑئیے ہیں بلکہ گرگ باراں دیدہ ہیں ‘‘۔
بخاری صاحب کہنے لگے ۔’’مجھے عوام کے بکراہونے کا مسئلہ نہیں ۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ تم انسان کو حیوان ثابت کرنے پر تلے ہو۔عوام کو بکرا کہتےہو خواص کو بھیڑئیے ۔کسی کو شیر اور چیتا سمجھتے ہو ۔شرف انسانی کو بھول گئے ہو ‘‘۔عطاالحق قاسمی نےبھی ایک عید قربان پر لکھا تھا کہ عید کے پہلے روز بھورے بکرے کو قربان ہونا تھا، صبح جب پرات میں چنوں کی دال ڈالی گئی تو بھورے نے حسب معمول کالے کو قریب نہ پھٹکنے دیا ، کالا کچھ دیر تو اس کا منہ دیکھتا رہا، پھر اس نے معمول سے ہٹ کر ایک حرکت کی یعنی بجائے اس کے اس پر جوابی حملہ کرکے کھانے میں اپنا حصہ وصول کرتا، اس نے اپنا اگلا پائوں پرات پر مار کر ساری دال زمین پر الٹادی، بھورے نے غصے سے اس کی طرف دیکھا پیشتر اسکے کہ وہ آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے اوریوں’’خانہ جنگی‘‘ کی سی صورت پیدا ہوجاتی، اتنے میں قصائی کاندھے پر کلہاڑی رکھے اور ہاتھ میں چھری پکڑے اندر داخل ہوا، اس نے بھورے کی رسی کھولی اسے کھینچتا ہوا دیوار کی اوٹ میں لے گیا جس پر بھورے اور کالے دونوں کو خطرے کا احساس ہوا، چنانچہ بھورے نے کالے کو مدد کے لئے پکارنے کی خاطر انتہائی دردناک آواز نکالی۔ اس وقت اس کی آواز میں بہت سوز و گداز تھا۔ اس کے جواب میں کالے نے احتجاجی انداز میں پوری قوت سے چلانا شروع کردیا اور رسی تڑا کر اس کی طرف جانے کی کوشش کی مگر زیادہ زور لگانے سے اس کے گلے میں پڑی رسی تن گئی جس سے اس کی آنکھیں باہر کو ابلنے لگیں، اتنی دیر میں قصائی نے بھورے کو زمین پر لٹا کر اسکی گردن پر چھری چلادی۔ ایک نہتا بکرا ایک’’مسلح‘‘ قصائی کے سامنے کتنی دیر کھڑا رہ سکتا تھا‘‘۔آخری جملہ سن کرپطرس بخاری کے چہرے پربالکل ویسا ہی تاثر نظر آیا جیسے قصائی کے سامنے بکروں کا ہوتا ہے ۔اسلئے اب آگے کچھ کہنا بنتا نہیں۔