گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک 20 رکنی وفد کی چین روانگی کی خبر سن کر اورمقصد جان کر میں قلم اٹھانے پر مجبور ہو گیا۔ یہ وفد پاکستان کی صنعت کے مختلف شعبوں کے نمائندوں پر مشتمل تھا۔ اس کا مقصد چین کی شاندار اقتصادی ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے تجربوں سے مستفید ہونا اور ساتھ ہی پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے کیلئے چینی حکومت سے مشاورتی مذاکرات کرنا تھا۔
پاکستان کی موجودہ قلیل30ارب ڈالر کی برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ اس کامیابی کے حصول کیلئے درست نظرئیےاور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ماضی میں پاکستان کی فرسودہ برآمدی حکمت عملی اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری 60فیصد برآمدات کم آمدن کپڑا سازی کی صنعت پر مشتمل ہیں۔ ہماری اعلیٰ ٹیکنالوجی، یعنی اعلیٰ آمدن برآمدات عملی طور پر نہ ہونے کے برابر ہیں یہی ہماری کمزوری ہے۔ خوشحالی اور سماجی ترقی پر اعلیٰ تکنیکی زیادہ مالیت کی برآمدات ضروری ہوتی ہیں جن پر افسوس ہے کہ ہم نے کبھی بھی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ہماری درآمدات اور برآمدات کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ تیز رفتار اور پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے، ہماری توجہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمدات پر ہونی چاہئے۔ اس تناظر میںسی پیک انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہماری حکومت چینی حکومت خاص طور پر صدر شی جن پنگ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو سکے کہ وہ اپنی کچھ بڑی صنعتیں جن میں موٹر گاڑی سازی، برقیات، دوا سازی، طیارہ سازی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر کو پاکستانی صنعتوں کے ساتھ باہمی کاروبار اور خاص طور پر دوسرے ممالک میں برآمدات کیلئے پاکستان منتقل کرنے کی منظوری دے دیں۔
میں نے چینی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی، عزت مآب مسٹر وانگ زیگنگ سے 21اکتوبر 2019کو ملاقات کی تھی۔ میں نے اس ملاقات میں یہ تجاویز پیش کی تھیں: چینی اور پاکستانی صنعت کاروں کے درمیان مشترکہ منصوبوں پر مشتمل زیادہ مالیت کی اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری اور برآمدکیلئے ایک مشترکہ چین- پاکستان کمیٹی قائم کی جائے۔ یہ مشترکہ منصوبے صرف تیار شدہ مصنوعات کی برآمد کیلئے ہونے چاہئیں۔ یہ مشترکہ منصوبے خصوصی طور پر منتخب اعلیٰ تکنیکی شعبوں میں ہونے چاہئیں جیسے کہ برقی گاڑیوں کیلئے ٹھوس مواد سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں، ویکسین، بائیو سیمیلرز، انجینئرنگ سامان، ہوائی جہاز، آٹو موبائل، جامع مواد، نینو ٹیکنالوجی کی مصنوعات، دفاعی سامان، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مصنوعات (جیسے مصنوعی ذہانت)، معدنی پروسیسنگ، صنعتی بائیو ٹیکنالوجی کے سامان، آبدوزیں، بلٹ ٹرین وغیرہ۔
چینی وزیر سائنس نے استفسار کیا کہ چین کو پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کیوں ہونی چاہیے جب کہ چین کے پاس بہت سے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کیلئے کہیں بہتر مواقع موجود ہیں جن میں کاروبار کرنے میں آسانی، سیاسی استحکام اور اچھی تکنیکی صلاحیت موجود ہے، نیز افرادی قوت بھی دستیاب ہے۔ یہ بہت مناسب سوالات تھے اور میں نے تجویز پیش کی کہ 100ارب ڈالر تک سالانہ برآمدات تک پہنچنے کیلئے ہماری حکومت چینی صنعت کاروں کو راغب کرنے کیلئے درج ذیل اقدامات کر سکتی ہے۔
1۔بیس سال کی ٹیکس چھوٹ کی پیش کش۔
2۔چین میں ہماری انجینئرنگ اور دیگر جامعات سے10000 پاکستانی نوجوان طلباء و طالبات کو باہمی صنعتی کاروبار کیلئے درکار مہارت کے مطابق ہر بڑی نئی صنعت کیلئے کم ا زکم3 سال کے دوران تربیت دی جائے تاکہ نئی صنعتوں کے قیام کیلئے افرادی قوت کو پورا کیا جا سکے۔3۔امن و امان کی صورتحال سے صنعتی پیداوار میں خلل پڑنے کی صورت میں حکومتی ضمانتوں پر مشتمل جامع بیمہ کی پیشکش۔
4۔کاروبار کیلئے مفت زمین اور ایسے مشترکہ منصوبوں کیلئے درکار عمارتوں کی تعمیر کے اخراجات کے 50فیصد کی پیشکش۔5۔ چین کے ساتھ اشتراک میں نئی صنعتوں کیلئے رعایتی نرخوں پربجلی اور گیس کی پیشکش۔ یہ نرخ موجودہ نرخوں سے 75٪ کم ہونے چاہئیں۔
میں نے سی پیک پر خصوصی توجہ کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ ون بیلٹ ون روڈ اقدام پاکستان کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ اس کے تحت، چینی اور پاکستانی صنعت مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے اکٹھے ہو سکتی ہیں جبکہ چینی اور پاکستانی تعلیمی ماہرمل کر مہارت کی ترقی پر توجہ مرکوز کر تے ہوئے اعلیٰ ہنر مند افرادی قوت فراہم کرسکتے ہیں جو اس طرح کی اعلیٰ تکنیکی مصنوعات بنانے والی صنعتوں کیلئے درکار ہے۔
میری ان تجا ویز کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ سراہا گیا۔ میں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کا ماہر تعلیم بھی ہوں، جو چین میں ایک انتہائی قابل احترام مقام رکھتا ہے۔ مجھے چین کے سب سے بڑے بین الاقوامی اعزاز، بین الاقوامی سائنس اور ٹیکنالوجی تعاون ایوارڈ اور چین کے اعلیٰ ترین اعزازات (Friendship Award ) ہیں، سے بھی نوازا گیا ،جو مجھے چین کے صدر شی جن پنگ نے عظیم عوامی ہال (ایوانِ صدر) میں دیئے تھے۔ چینی وزیر نےمیری اس ملاقات پر تبصرہ کیا کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایسی انقلابی اور بصیرت انگیز تجا ویز سامنے آئی ہیں اور فوری طور پر ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کیلئےچینی ہم منصب ماہر کے نام کا اعلان کیا اور پاکستان سے بھی ایسا کرنے کی درخواست کی۔ افسوس اس بات کو 4 سال بیت گئے اور حکومت پاکستان نے اس سنہری موقع کو پانے کیلئے کچھ نہیں کیا اور یہ موقع گنوا دیا۔ اگر وزیر اعظم اور آرمی چیف اس تجویز کو اعلیٰ سطح پر آگے بڑھائیں تو یہ اب بھی بحال ہو سکتا ہے۔
آج کی تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت میں، اعلیٰ تکنیکی برآمدات اقتصادی ترقی، قومی مسابقت، اور روزگار کی تخلیق کا ایک اہم محرک ہیں۔ وہ ممالک جو مؤثر طریقے سے اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کو تیار اور برآمد کرتے ہیں وہ بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت، جدت طرازی اور اعلیٰ معیار زندگی کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم، اعلیٰ ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھانے کیلئے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف عوامل کو حل کرتا ہے، جس میں ایک مضبوط ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (R&D) ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے سے لے کر ایک قابل کاروباری ماحول پیدا کرنا شامل ہے۔
اعلیٰ ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھانا ایک پیچیدہ لیکن قابل حصول ہدف ہے۔ اس کے حصول کیلئے ایک جامع نقطہ نظر اور منظم حکمت عملی کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے جو R&D تحقیق و ترقی اور کاروباری ماحول کے دونوں عوامل کو حل کرسکیں،اس پر عمل پیرا ہو کر ہی پاکستان خود کو عالمی سطح پر اعلیٰ تکنیکی برآمدات کے میدان میں ایک لیڈر کے طور پر کھڑا کر سکتا ہے۔ یہ قدم ہمارے عوام کیلئے اقتصادی ترقی، خوشحالی اور اعلیٰ معیار زندگی کا باعث بنے گا۔ جنوبی کوریا، تائیوان، چین، اسرائیل، فن لینڈ، سنگا پور اور دیگر ممالک کی بہت سی مثالیں ہیں جنہوں نے تیزی سے اعلیٰ تکنیکی برآمدات کے ذریعے ترقی حاصل کی۔ ٹیکنالوجی سے چلنے والی علمی معیشتوں میں منتقلی کیلئےہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔