• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
توقع کی جا رہی ہے کہ بھارت کے آئندہ انتخابات میں قدامت پرست بھارتیہ جنتا پارٹی جیت جائے گی اور گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی وزیر اعظم بن جائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوتوا یعنی ہندودھرم کی قدیم روایات کو بحال کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ایران میں مذہبی انقلاب تین دہائی پرانا ہو چکا ہے اور اب مشرق وسطیٰ کے دوسرے بہت سے ملکوں، مصر، شام، عراق اور لیبیا وغیرہ میں بنیاد پرست اسلام کے قدامت پرست ماڈل کو نافذ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس پہلو سے پاکستان یا افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت سے دیگرترقی پذیر ملکوں میں بھی ہو رہا ہے۔ اس کی شکلیں ہر جگہ مختلف ہیں لیکن ان کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ یا جنوبی ایشیاء میں مذہب کے نام پر جنگیں لڑی جارہی ہیں تو افریقہ میں ان کی شکل قبائلی محاذ آرائی ہے بلکہ اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ افریقہ میں قبائلی جنگوں میں جتنے لوگ مر چکے ہیں شاید ابھی اتنے مذہبی جنگوں میں لقمہ اجل نہیں بنے۔ اگر ہم آج کے پاکستان کو اس وسیع تناظر میں دیکھیں تو شاید ہم بہتر نتائج اخذ کرسکیں۔
مذہبی انتہا پسند پاکستان میں فقہی اسلام کو یہ کہہ کر لاگو کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر تخلیق کیا گیا تھا۔ پاکستان کے بہت سے روشن خیال بھی ان سے اتفاق کرتے ہوئے اس نعرے کی تفسیر مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ دونوں دھڑے قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریروں کے اقتباسات پیش کرتے تھکتے نہیں ہیں۔اگر قدامت پرست قائداعظم کی وہ تقریریں سامنے لاتے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے کا اعلان کیا تھا تو روشن خیال ان کی گیارہ ستمبر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مذہبی شناخت ختم ہو چکی ہے اور سب کی شناخت پاکستانی ہونا ہے۔ قائد اعظم نے دونوں طرح کے بیانات دیئے ہوں گے لیکن اصل میں دونوں دھڑے پاکستان کی تخلیق کی وجہ تسمیہ کو اپنے موجودہ نظریات کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ہندوستان تو ہندومت کے نام پر نہیں بلکہ واضح طور پر سیکولرازم کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا پھر وہاں ہندوتوا کے احیاء کی کیا منطق ہے۔ مزید برآں نہ ایران مذہب کے نام پر بنا تھا اور نہ ہی کوئی اور دوسرا مشرق وسطیٰ کا ملک لیکن اس کے باوجودپچھلی تین دہائیوں میں ان میں مذہبی بنیاد پرستی کی طاقتیں مضبوط ہوئی ہیں ۔سب سے زیادہ قدامت پرست حکومت افغانستان میں قائم ہوئی جو کہ بظاہر مذہب کے نام پر قائم نہیں ہوا تھا۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان مذہب کے نام پر نہ بھی بنا ہوتا تو بھی شاید یہاں وہی کچھ ہو رہا ہوتا جو ہو رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بدلتے ہوئے معاشی اور سماجی تناظر میں مختلف دھڑے اپنے نظریات کے جواز کے لئے تاریخی حقائق کا سہارا لیتے ہیں۔ سیکولر ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ ہندوتوا کے اس لئے حامی ہے کہ ہندوستان ہندوازم کے لئے بنا تھا لیکن وہ کوئی اور جواز ڈھونڈ لیتی ہے۔اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بنیاد پرست طاقتوں کے ہاں اپنے اپنے دلائل ہیں کہ وہ کیوں ایک مخصوص طرز کا مذہبی نظام لاگو کرنا چاہتی ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ اس مظہر (مذہبی بنیاد پرستی) کی جڑیں بدلتے ہوئے معاشی اور سماجی ڈھانچے میں گڑی ہوئی ہیں۔ گلوبلائزیشن نے ان سب ملکوں میں معاشی اور سماجی صورت حال کو اتنا تبدیل کر دیا ہے کہ اب نئی نظریاتی کشمکش ناگزیر ہو گئی ہے۔
انیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی تک یہی پاکستان تھا جہاں ایوب خان کے زمانے تک نسبتاً آزاد خیال حکومت قائم تھی۔ اگرچہ پاکستان کے اوائل کے زمانے میں قرارداد مقاصد منظور کر لی گئی تھی لیکن اس کو منظور کرانے والے لیاقت علی خان کی شہرت اسلام پسندی کے بجائے کچھ اور تھی۔ اس زمانے تک یہ بحث مخصوص مذہبی جماعتوں کے حلقوں تک محدود تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا یا نہیں۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ کا نعرہ بھی ستر کی دہائی میں مقبول ہونا شروع ہوا تھا۔ ساٹھ کی دہائی تک تو یہ ماحول تھا کہ ایوب خان نے بلاخوف و خطر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو پھانسی کی سزا دلوائی تھی (جوکہ بیرونی دباؤ کی بنا پر معاف کردی گئی)۔
ستر کی دہائی میں پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی کا آغاز ہوا اور مذہبی جماعتوں کی سربراہی میں قومی اتحاد نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف ضیاء الحق کے کودتا کا جواز پیدا کیا۔ یہ سب کچھ افغان جنگ سے بہت پہلے ہو رہا تھااس لئے ہم افغانستان میں ہونے والی تاریخی تبدیلیوں کو بھی پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی کا منبع نہیں کہہ سکتے۔ اگرچہ ضیاء الحق کی اسلامائزیشن اور افغان جہاد نے بنیاد پرستی کی لہر کو بہت توانا کر دیا لیکن وہ اس کی بنیادی وجہ نہیں تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کے مصر یا ترکی میں ہونے والی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ عراق اور شام کی خانہ جنگیاں نہیں ہیں۔
ستر کی دہائی میں جمہوریت اور ترقی پسند تحریکیں پاکستان سمیت پوری دنیا میں مضبوط ہورہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی نظاموں میں بھی بنیادی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ پاکستان کا پرانا زرعی طرز پیداوار نئے طرز کی مشینی پیداوار کی طرف رواں دواں تھا۔ اسّی اور نوّے کی دہائی میں گلوبلائزیشن پرانے نظام کو درہم برہم کر رہی تھی۔ اسی کے نتیجے میں پاکستان، ہندوستان اور دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک میں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں۔ چونکہ ریاستیں نئے معاشی نظام سے پیچھے رہ گئی تھیں اس لئے بہت بڑا سماجی خلا پیدا ہوا جسے قدامت پرست تحریکوں نے پُر کیا۔ یہ تبدیلی پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں روپذیر ہونا شروع ہوئی۔ پاکستان کے وہ علاقے جہاں ریاست کی عملداری پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھی ان تبدیلیوں کا خصوصی شکار ہوئے۔
مثلاً فاٹا اور دوسرے قبائلی علاقوں کو ہی لے لیجئے جہاں مسئلہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں برطانوی راج کا قائم کردہ قدیم نظام ختم ہو چکا ہے۔ ان علاقوں کی معاشی اور سماجی ہیت بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ تبدیلی اس علاقے کے لوگوں کے دنیا کے ساتھ روابط بڑھنے سے آئی ہے۔ ان علاقوں سے لوگ محنت مزدوری کرنے کیلئے نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں میں گئے بلکہ بیرون ملک بھی گئے۔ وہ جب واپس آئے تو اپنے ساتھ جدید دنیا کی سہولتیں بھی لائے اور ان کے سوچنے کے انداز میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی۔ ایسی صورت میں ان علاقوں میں جدید ریاستی اداروں کی ضرورت تھی جو کہ موجود نہیں تھے۔ پرانانظام ختم ہوتا گیا اور نیا نظام قائم نہیں ہوا۔اس خلا میں تحریک طالبان پاکستان پیدا ہوئی۔ خود طالبان نے پرانے نظام کے کارپردازوں (ملک) کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور نظام کی باقیات کو بھی ختم کر دیا۔
اس تاریخی عمل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں جاری و ساری نظریاتی کشمکش کو درست سیاق و سباق میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس کا مناسب حل تلاش کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت طالبان کو ہٹا کر پاکستانی ریاست کے جدید اداروں کو فاٹا میں قائم کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں۔ اس علاقے کے لوگ بھی باقی پاکستانی شہریوں کی طرح جدید زمانے کے قوانین کے تحت زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ غرضیکہ سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان تخلیق کرنے والوں کے نام پر متضاد تفسیریں کی جائیں، اصل چیلنج یہ ہے کہ ریاست کو معاشی اور سماجی حالات سے ہم آہنگ کیا جائے۔
تازہ ترین