سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ چھوڑ دیں الیکشن کمیشن یا سنی اتحاد کیا سوچ رہا ہے، الیکشن کمیشن بھی آئین پر ہی انحصار کرے گا، بتایا جائے سنی اتحاد کو آئین کے مطابق کیسے مخصوص نشستیں مل سکتیں؟ آئین کہتا ہے کہ اگر اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد 90 فیصد ہو تو بھی مخصوص نشستیں 10 فیصد ارکان رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو ہی ملیں گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین یہ بھی کہتا ہے کہ مخصوص نشستیں سیاسی جماعت کی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے ہی ملیں گی، کسی سیاسی جماعت کو اس کی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے زیادہ نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ مخصوص نشستوں کی فہرست جنرل الیکشن سے پہلے جمع کرانی ہے۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ فہرست پہلے جمع کرانی ہے اور آپ نیا سسٹم سامنے لے آئے ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سسٹم نیا نہیں لائے، مسئلہ نیا سامنے آیا ہے، اس کے لیے حل بھی نیا ڈھونڈنا ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مسئلہ بھی تو آپ نے پیدا کیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مسئلہ انتخابی نشان کیس کے فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اعلیٰ عدلیہ کے جسٹس منیب اختر،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کی قدرتی حدود سےمطابقت پر زور دیا گیا ہے، آرٹیکل 51 اور 106 سے 3 ضروری نکات بتانا ضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح دی ہے، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے کہا کہ الیکشن کمیشن یا آپ کیا سوچ رہے ہیں وہ چھوڑ دیں، الیکشن کمیشن بھی آئین پر انحصار کرے گا، الیکشن کمیشن آئین کی غلط تشریح بھی کر سکتا ہے، عدالت کسی کی طرف سے آئین کی تشریح پر انحصار نہیں کرتی، آپ اپنی نہیں آئین کے مطابق تشریح بتائیں، الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیں، اپنی بات کریں، آئین کے مطابق بتائیں کہ سنی اتحاد کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی، نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست کے مطابق ہوں گی، ہر جماعت کو اپنی جنرل نشستوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کر دیں؟ ایسا کیوں کریں؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے۔
’’جنہوں نے انتخابات لڑنے کی زحمت نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں؟‘‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ جنہوں نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں؟
جسٹس عرفان سعادت خان نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ غیر مؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں انتخابات میں پرفارمنس پر انحصار نہیں کرتیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد سیاسی جماعت نہیں رہی، الیکشن کمیشن نے اِن لسٹڈ سیاسی جماعت تو قرار دیا ہے۔
PTI نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر کے خودکشی کیوں کی؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی اب بھی سیاسی جماعت کا وجود رکھتی ہے تو دوسری جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر کے خودکشی کیوں کی جو آپ کے دلائل کے خلاف جا رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پڑھا جو انتخابات سے قبل آیا، پورا معاملہ کنفیوژن کا شکار ہوا جب پی ٹی آئی سے نشان لے لیا گیا، سوال ہے کہ پی ٹی آئی نشان کے بغیر کیسے انتخابات جیت سکتی ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی فیصلے کے بعد بھی منظرِ عام پر ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ آپ کہہ سکتے تھے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں، کہانی ختم ہو جاتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا تمام امیدوار تحریکِ انصاف کے تھے؟ تحریکِ انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ جمع کرا کر واپس کیوں لیے گئے؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آزاد امیدوار گھوم رہے ہیں لیکن آزاد امیدوار ہیں کون؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی غلط تشریح کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے دیکھا جائے، آئین کو دیکھنا ہے، عدالت یہاں یہ دیکھنے نہیں بیٹھی کہ الیکشن کمیشن نے کتنی زیادتی کی، عدالت کو دیکھنا ہے کہ آئین کیا کہہ رہا ہے۔
جسٹس عرفان سعادت نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں جو نشستیں جیت کر آئے انہیں مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں، جب سنی اتحاد نے انتخاب ہی نہیں لڑا تو نشستیں جیتنے والی بات تو ختم۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم کیا، انتخابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت ختم تو نہیں ہو جاتی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر تحریکِ انصاف سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار تحریکِ انصاف سے الگ کیوں ہوئے؟ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار تحریکِ انصاف میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پھر سوال کیا کہ جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے لیے ایک ہی انتخابی نشان پر انتخابات لڑنا شرط نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ سنی اتحاد کے وکیل ہیں، پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے تحریکِ انصاف کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتے ہیں، سنی اتحاد سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئیں، میں نے آئین پر عمل درآمد کا حلف لیا ہے، کسی سیاسی جماعت یا حکومتی مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جی بالکل، میں نہیں بلکہ آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت فورٹریس آف ڈکشنری نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن ملکوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ان کے آئین کل نہیں بنے، پاکستان کے آئین کو بنے 50 سال ہوئے اور اس کا حال کیا ہے؟ یہ انگلستان میں لکھا ہوا آئین نہیں، تاریخ دیکھتے ہیں، جو تحریکِ انصاف کے صدر تھے انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، عمران خان وزیرِ اعظم تھے انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی، آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تحریکِ انصاف کو کیا ہم نے کہا تھا کہ الیکشن نہ کرائیں؟ عمران خان وزیرِ اعظم تھے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی منت کی تھی کہ انتخابات کرا لیں؟ تحریک انصاف کے ساڑھے 8 لاکھ ممبران کا حق کہاں گیا؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا شکوہ سپریم کورٹ سے نہیں الیکشن کمیشن سے ہے، آرٹیکل میں نہیں لکھا کہ مخصوص نشستوں کا معاملہ انتخابات سے قبل طے کرنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آئین میں 25 سال کا شخص ایم این اے بن سکتا ہے تو کیا 20 سال کی بچی ایم این اے بن سکتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ نہ ملنے کا کہا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، انتخابات کس نے کرائے؟ الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، کیا تحریکِ انصاف کو ہم نے کہا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں؟ عمران خان بطور وزیرِ اعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو رہے تھے، انتخابات کرانے کے لیے پی ٹی آئی کو سال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھرقانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تحریکِ انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف نظرِ ثانی زیرِ التواء ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب! آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرِ ثانی زیرِ التواء ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ووٹ سارے پی ٹی آئی کو ملے، پی ٹی آئی کیوں سنی اتحاد میں گئی؟ ووٹرز کا کیا بنا؟ بات ہو رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ ہیں تو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی، جب تحریکِ انصاف انتخابات میں موجود ہی نہیں تو کیس تحریکِ انصاف کا کیسے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے سماعت کے دوران ایک موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ سیاسی تقریر کرنی ہے تو باہر کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فرض کریں اگر طے ہو جائے کہ امیدوار تحریکِ انصاف کے تھے تو آپ کدھر کھڑے ہیں؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ نے تو اپنے دلائل خود ہی دھو دیے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ فرق کیسے ہوتا ہے کہ کوئی آزاد الیکشن لڑ رہا ہے یا جماعت کا امیدوار ہے؟ کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے وقت سرٹیفکیٹ اسی لیے رکھا گیا ہے، وہاں ان امیدواروں نے خود کو کیا ظاہر کیا تھا، وہاں سے شروع کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو امیدوار تحریکِ انصاف میں ہی رہتے اور مخصوص نشستیں مانگتے، یہ لوگ دوسری جماعت میں چلے گئے، اب پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ سیکشن سے ایک لفظ لے کر اپنے کیس کو نہیں چلا سکتے، آپ دکھائیں کہ سنی اتحاد نے پارٹی لسٹ دی، کیا لسٹ دی؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی سنی اتحاد کونسل نے لسٹ دی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ پہلی لسٹ الیکشن کمیشن کو مخصوص وقت کے اندر دینی ہوتی ہے، کیا آپ نے دی؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص وقت میں الیکشن کمیشن کو لسٹ نہیں دی لیکن شیڈول کا مسئلہ ہے، سیکشن کا نہیں، سیٹیں الیکشن کے بعد ملتی ہیں تو الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کو بتانا ہے کہ آپ سیاسی جماعت ہیں، لسٹ ہم بعد میں دیکھ لیتے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت کو جیتی گئی سیٹوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں، میرا نقطہ ہے کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو سیٹیں جیتیں انہی کے حساب سے مخصوص نشستیں ملیں گی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو دیکھنا ہے کہ خالی نشستوں کو کیسے بھرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر آپ سیاسی جماعت نہیں تو خالی نشستیں کہاں جائیں گی؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پھر دیکھنا ہو گا کہ آزاد امیدوار کون ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر 10 لوگ شامل نہیں کرتے تو کیا ان کی سیٹیں خالی رہ جائیں گی؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کون سی سیاسی جماعت آپ کی طرف آ سکتی ہیں؟ کیا سیاسی جماعت ہمارے سامنے ہے یا نہیں، آزاد امیدوار اب سنی اتحاد کونسل کے پیچھے کھڑے ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد سیاسی جماعت ہے یا نہیں، اس پر سوال اٹھا ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے اقرار کیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے، اگر سپریم کورٹ اپیل منظور کرتی ہے تو 3 روز کے اندر نشستوں پر کام شروع ہو گا، میں پہلے چیف جسٹس کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا میرے سوال کا جواب دینے کے لیے اجازت لینی ہو گی؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سر ایسے نہ کریں، ہنس کر میرا قتل نہ کریں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے جملے پر چیف جسٹس مسکرا دیے اور سوال کیا کہ جن کی لڑائی لڑ رہے ہیں وہ امیدوار سنی اتحاد کے ہیں یا تحریکِ انصاف کے؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فی الحال تو سنی اتحاد کے ساتھ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فی الحال کی بات نہ کریں، آپ کے ساتھ ہیں یا نہیں؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اس بات کا دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی یا سنی اتحاد نے بہت غلطیاں کیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سنی اتحاد کے آئین کے مطابق اقلیتی اور عورتوں کو پارٹی ممبر نہیں بنایا جاتا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ خواتین نہیں صرف اقلیتی سنی اتحاد کے ممبر نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ تو آپ کو اقلیتوں کی سیٹیں نہیں چاہئیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا آپ کا منشور آئینی ہے؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ چند مخصوص افراد کو جماعت کا حصہ نہ بنانا آسان سوال نہیں۔
’’سنی اتحاد کونسل نے اقلیتوں کا حق ہی اپنے آئین میں فارغ کر دیا‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں سفید رنگ ہے، کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائدِ اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں کہ اقلیتوں کا حق برابر ہے، آپ نے اقلیتوں کا حق ہی اپنے آئین میں فارغ کر دیا، کیا آپ کی پارٹی کا آئین، آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر سنی اتحاد اور تحریکِ انصاف ایک ہو جاتیں تو معاملہ حل ہو جاتا لیکن وہ بھی نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو 80 سے زائد سیٹیں ملیں، آپ کو فائدہ ہوا، آپ سے کچھ چھینا نہیں گیا، عدالت سمجھتی ہے کہ سیاسی جماعت کی ممبر شپ اہمیت رکھتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جنہوں نے آپ کو جوائن کیا، ان میں کوئی غیر مسلم ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، دیکھنا پڑے گا۔
اس کے ساتھ ہی سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ نے میرے سوالات کے جواب نہیں دیے۔
اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے منیر نیازی کے شعر کا حوالہ دیا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کیا کسی جگہ ووٹرز نے اعتراض کیا کہ آپ لوگوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کیوں اختیار کی؟ کسی نے آرٹیکل لکھا ہو یا کوئی پریس کانفرنس یا احتجاج کیا ہو؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کے خلاف احتجاج اور اعتراض صرف الیکشن کمیشن نے کیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کے آئین پر جو اعتراض رکھا اس پر کبھی آپ کو نوٹس کیا تھا؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کبھی سنی اتحاد کو نوٹس نہیں کیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اب تک رجسٹرڈ جماعت ہے، الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی تھی کہ ہاؤس مکمل کرتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کی بات کریں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پھر حقیقت بتائیں آئین کے تحت کب یہ ملک چلا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ آئین کے مطابق ہی ملک چلے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم یہاں بیٹھے کیوں ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کنول شوذب کس کی طرف سے ہیں؟ تحریکِ انصاف کا تو کیس ہی نہیں، ہم تو سنی اتحاد کونسل کا کیس سن رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کنول شوذب سنی اتحاد کونسل کی لسٹ میں شامل ہیں؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم سے سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کو ایسے نہیں سن سکتے، مخصوص نشست کے لیے کنول شوذب پی ٹی آئی سے ہیں، نہ سنی اتحاد سے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، بنیادی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں کہ کنول شوذب مخصوص نشست کے لیے امیدوار ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوذب تحریکِ انصاف کی لسٹ میں ہیں مگر سنی اتحاد کونسل نےلسٹ لی ہی نہیں، کنول شوذب نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ الیکشن کمیشن کی پوزیشن کیا ہے؟ یہ بات غیر متعلقہ ہے، پہلا کام درخواست کے ساتھ ریکارڈ مہیا کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ تحریکِ انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ جمع کرا کر واپس کیوں لیے گئے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ آپ سنی اتحاد کا کیس تباہ کر رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ آپ تو پراسس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کا نہیں سنی اتحاد کونسل کا کیس ہے، آپ اپنی پٹیشن پڑھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ہمارے سامنے وہ آرڈر چیلنج ہی نہیں ہوا تو ہم کیسے سنیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اس سب کے درمیان تحریکِ انصاف کہاں ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوذب پی ٹی آئی سے ہی ہیں۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سلمان راجہ صاحب! آپ عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے، اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے انتخابات سے متعلق بھی کیس زیرِ التواء ہے، ہر غیر متعلقہ کیس پر سوموٹو لیا جاتا رہا ہے، 8 فروری کے انتخابات کا تو پرفیکٹ کیس تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ آپ دلائل کے لیے کتنا وقت لیں گے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 1 گھنٹے سے زائد وقت لوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہم 1 گھنٹے کا وقت آپ کو نہیں دے سکتے، اس کیس کو ہم اتنا طویل نہیں کر سکتے، ہزاروں دیگر مقدمات زیرِ التواء ہیں، زیر التوا کیس والوں پر تھوڑا رحم کر لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں جسٹس اطہر من اللّٰہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں، میری رائے میں تحریکِ انصاف کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آ کر کہنا چاہیے تھا کہ یہ ہماری نشستیں ہیں لیکن نہیں آئے، معلوم نہیں کیوں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا ایسے حالات تھے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ پی ٹی آئی کو جماعت نہ ماننے والے فیصلے کے خلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے؟ 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ کیا وجہ تھی کہ تحریکِ انصاف کے امیدوار دوسری جماعت میں گئے؟
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ انتخابی نشان واپس ہوگیا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، تحریکِ انصاف کے امیدواروں نے مجبوری میں سنی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ مجبوری ہو تو کیا آئین کو نہیں مانا جاتا؟ کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیے جاتے ہیں؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ سینئر وکلاء نے یہ فیصلہ کیا کہ سنی اتحاد میں شمولیت میں کوئی حرج نہیں، میرے دلائل آئینی تشریح والے معاملے پر فیصل صدیقی سے مختلف ہیں، میری رائے میں کسی پروگریسیو تشریح کی ضرورت نہیں، آئین کی زبان کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا کہتی ہے، پارلیمانی میں نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین عوام اور منتخب نمائندگان کے لیے بنایا گیا ہے، جب آئین واضح ہو تو تشریح کی ضرورت نہیں، کوئی بھی سمجھ سکتا ہے، آئین کی اہمیت ہے، جو چیز آئین میں واضح ہے اس پر عمل کریں۔
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ تحریکِ انصاف کے کالعدم ہونے کی باتیں چل رہی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریکِ انصاف میں کوئی وکیل نہ ہوتا، اگر پہلا پہلا انتخابات لڑ رہی ہوتی تو مفروضے سنتے، مجبوریوں پر جائیں گے تو ملک نہیں چلے گا، کل اگر کوئی کہے کہ مجبوری ہے، سگنل پر رک نہیں سکتا؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا، فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا، مکمل سچ کوئی نہیں بولتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سب نشستوں پر انتخابات ہونا چاہئیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں، لوگوں نے ووٹ تحریکِ انصاف کو دیا تھا، کیا ووٹرز کو پتہ تھا کہ آپ سنی اتحاد میں جائیں گے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب! سچ بول دیں، مجھے نہیں سمجھ آتی کہ ہر کوئی سچ کو دبانا کیوں چاہتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ کو آئین کی کتاب دکھا دی اور کہا کہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے بنایا ہے، آئین میں واضح ہے کہ اس پر عمل کریں، یہ سیدھا سادہ آئین ہے۔
سلمان اکرم راجہ کے دلائل کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خاتون کے فون سے ہری لائٹ آنے پر نوٹس لیا اور کہا کہ یہ پیچھے سے کون تصویر لے رہا تھا؟ یہ خاتون بیٹھی ہیں، کیا گرین چیز سے پکچر لے رہی ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خاتون سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ سے بات کر رہے ہیں جو پیچھے مڑ کر دیکھ رہی ہیں، کھڑی ہوجائیں! آپ کے ہاتھ میں کیا چیز ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عملے کو ہدایت کی کہ ان کے فون میں دیکھیے کیا کر رہی ہیں؟ ہری لائٹ کیا تھی جو دیکھنے میں آئی؟ ہم اس پر دوبارہ آتے ہیں ذرا ان کا معاملہ دیکھ لیں۔
’’کل سنی اتحاد کو کنٹرول کرنے والوں کا پلان تبدیل ہوا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ خود غلط تشریح کرتے رہے ہیں تو ہم کیا کریں؟ میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے، کل سنی اتحاد کو کنٹرول کرنے والوں کا پلان تبدیل ہوا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کہہ رہی ہے کہ ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، مکمل حق امیدوار کو کیسے دیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی جماعت میں جائے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سلمان اکرم راجہ سےسوال کیا کہ کیا آپ ہم سے ایسی چیز پر مہر لگوانا چاہتے ہیں جو مستقبل میں سیاسی انجینئرنگ کا راستہ کھولے گی؟ یا تو آپ پوری طرح سے سچ بول دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا حالات تھے جب آپ نے رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر نہیں کی، آج بھی اپیل دائر نہیں کر رہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہئیں، فیصل صدیقی سے پوچھ لیتے ہیں کہ کس کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں۔
اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے سلمان اکرم راجہ کی مخالفت کر دی اور کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ! جذباتی تقریر ایک چیز اور قانونی دلائل دوسری چیز ہے، ہم مکمل انصاف کی طرف بھی چلتے ہیں تو باقی ماندہ چیزوں کا کیا ہو گا؟ تو کیا مکمل انصاف ہوا میں ہو رہا ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک جیسی تھیں تو سنی اتحاد جیسی غیر معروف جماعت کیوں جوائن کی؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ہماری آئینی سوجھ بوجھ یہ تھی کہ سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے سے کوئی فرق نہیں ہو گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد جوائن کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی کوئی میٹنگ ہوئی، منٹس داخل کیے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 2 فروری کو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دیا، الیکشن کمیشن کی غلط تشریح سے عوام جنہوں نے ووٹ دیا وہ کیوں متاثر ہوں؟ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا 2 فروری کا فیصلہ غیر قانونی کہہ دے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ موجودہ اپیلوں کو پی ٹی آئی کی الیکشن سے متعلق درخواست کے ساتھ کیوں نہ سنا جائے تاکہ ساری صورتِ حال سامنے آ جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے تو وہ فیصلہ چیلنج کیا لیکن کیا پی ٹی آئی نے بھی چیلنج کیا؟
کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ہم نے بطور پی ٹی آئی وہ فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مفروضوں پر فیصلے کرنا سپریم کورٹ کے لیے خطرناک بات ہو گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ موجودہ تنازع کو ہم مکمل انصاف کے تحت دیکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ فرض کریں کہ ہم نے مکمل انصاف کے تحت دیکھ بھی لیا تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟
اس موقع پر مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت میں 2 بج کر 40 منٹ تک وقفہ کر دیا گیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسا کہنا کہ 86 ممبران کی کوئی حیثیت نہیں اسمبلی کو غیر متوازن بناتا ہے، دورانِ مدت آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کو جوائن کر سکتا ہے، آئین کا مقصد پارلیمنٹ کو کسی سیاسی جماعت سے نمائندگی کرانا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ یعنی آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور ایسی بات سمجھ بھی آتی ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جاتا ہے، دیکھنا ہو گا کہ آزاد امیدواروں کا کسی جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہے یا نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آزاد امیدوار 3 روز بعد بھی کسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں، آزاد امیدواروں کی مرضی ہے، آزاد امیدوار کوئی سیٹ نہ جیتنے والی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کے ہر لفظ کی اہمیت ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو آزاد امیدوار شامل ہوں گے، وہ جیتی ہوئی سیٹیں تصور ہوں گی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون امیدوار ہیں؟ کون سی سیاسی جماعتیں ہیں؟ عوام کو معلوم ہو کہ سنی اتحاد ہے کون؟ کبھی حکومت میں آئی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 25 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، عوام نے سیاسی جماعتوں کے منشور پڑھے نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مفروضہ لے لیتے، 1 ارب پتی نے سیاسی جماعت خرید لی، ہوتا ہے ناں ایسے؟ ہر سیاسی جماعت ایک منزل کی طرح ہوتی ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین آزاد امیدوار کو کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا حق دیتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یا آپ کہیں کہ آپ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے، اگر آزاد امیدوار تھے تو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس نے کوئی سیٹ جیتی ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 3 روز میں آزاد امیدواروں کا جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے، لیکن کچھ سامنے ہو گا تو شامل ہوں گے ناں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی بزنس مین سیاسی جماعت خرید کر اپنی طرف آزاد امیدواروں کو کر لے تو کیا ایسا پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کیا معلوم آزاد امیدوار ایسی جماعت سے منسلک ہونا بہتر سمجھتے ہوں جس کی کوئی سیٹ نہ ہو۔
جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ 86 امیدواروں کو پی ٹی آئی ووٹرز نے ووٹ دیا، 86 امیدواروں کو کیوں لگا کہ ایک ہی جماعت سے منسلک ہونا ہے؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو حق تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جتنی سیٹیں کسی جماعت نے لی ہیں تو آزاد امیدوار اس میں شامل ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ 86 اگر کسی بھی جماعت میں شامل نہ ہوں تو مخصوص نشستوں کا کیا ہو گا پھر؟ آزاد امیدوار اگر آزاد رہنا چاہیں تو ان کی سیٹیں خالی نہیں رکھی جاتیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تمام سیٹیں مختلف جماعتوں میں بانٹ دیں لیکن سنی اتحاد کی روک دیں، آپ نے کہا کہ تحریکِ انصاف نے بطور جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لیا، آپ اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں، کیا عوام کا حق آپ کے ہاتھوں ختم کر دیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت ہر حلقے سے انتخابات لڑتی ہے اور ایک ووٹ سے ہر جگہ سے ہار جاتی، ایک ایک ووٹ سے ہر حلقے میں ہارنے والی جماعت کے تمام ووٹوں کی اہمیت ختم ہو جائے گی، سسٹم قوانین پر مبنی ہوتا ہے اور قوانین کو ہمیں فالو کرنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آزاد امیدوار دو تین ماہ بعد شامل ہوتے تو کیا جماعت کو مخصوص نشستیں ملنے کی اہلیت ہو گی؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ اسی وجہ سے 3 دنوں میں شامل ہونے کا قانون ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بہت ہی عجیب سا قانون ہے، اگر آزاد امیدوار آزاد ہی رہتے تو پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ پھر مخصوص نشستیں خالی رہتیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ تو آپ آئین کے خلاف جا رہے ہیں، آج تک کبھی ایسا ہوا نہیں کہ مخصوص نشستوں کو خالی رکھا جائے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ شروع میں الیکشن کمیشن نے ساری سیٹیں سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں، بعد میں مقدمے بازی کی وجہ سے ان سیٹوں کو روک دیا گیا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کی وجہ سے ہم آزاد ممبر ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مکمل طور پر غلط سمجھا۔
’’PTI نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے، اپنی غلطیوں کو بار بار دہرایا‘‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو ماننے والی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے، تحریکِ انصاف نے اپنی غلطیوں کو بار بار دہرایا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہمارے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے، آپ کو تحریکِ انصاف کا امیدوار سمجھا جائے یا سنی اتحاد کونسل کا؟ آپ تحریکِ انصاف کے امیدوار کے وکیل ہیں، سنی اتحاد کونسل کی بات نہیں کہہ سکتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ 3 سیٹیں جیت کر 12 سیٹیں آپ کو مل جائیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ قانون کے مطابق تناسب سے ہی خواتین اور غیر مسلم کی سٹییں ہوں گی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب! آپ عدالت کے سامنے 2 مؤقف اپنا رہے ہیں، ایک مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ اگر انہوں نے غلط تشریح کر لی، آپ تو غلط تشریح نہیں کرتے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہم ووٹر کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی غلطیوں کا حل ہم ڈھونڈیں؟ ہم نے الیکشن کمیشن کو نہیں منظور کیا، آپ نے کیا، غلطیاں تو کیں ناں، کنول شوذب کوئی عوام کی نمائندہ نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 2018ء میں ایک سیاسی جماعت مشکلات کا شکار تھی، 2024ء میں بھی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل فعال سیاسی جماعت تھی۔
چیف جسٹس نے دیگر فریقین وکلا کو ہدایت کی کہ ہم تیسرا دن نہیں دیں گے، مختصر رکھیے گا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو حامد رضا کے کاغذات نامزدگی ساتھ لانے کی ہدایت کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔