السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سیروں خون بڑھاتے ہیں
’’سنڈےمیگزین‘‘کےہفتہ وارلکھاری اپنے خطوط کے جوابات پا کر اپنا سیروں خون بڑھاتے ہیں۔ ویسےآپ کی ایک ایک خط پر اِس قدر عرق ریزی دیکھ کر حیران رہ جاتی ہوں کہ آج کے دَور میں کون ایسی محنتِ شاقہ کرتا ہے بھلا۔ ’’بلوچستان اسمبلی کے منفرد انداز‘‘ ارسلان فیاض کی عُمدہ تحریر تھی۔ ڈاکٹر عارف سکندری نے موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانوں پر اثرات بھرپور انداز میں بیان کیے۔ منور مرزا کا تجزیہ ہمیشہ کی طرح لاجواب تھا۔ ڈاکٹر نوشابہ صدیقی نے بھی ڈاکٹرجمیل جالبی پر شان دارمضمون لکھا۔ ؎ چندن کی پوشاک بنالیں، چاند ہمارا اپنا ہے … انتہائی خُوب صورت مصرع تھا۔
پھر خیال آیا کہ آپ واقعی اِس جریدے کی ایک ایک سطر پر کس قدر دل سے محنت کرتی ہیں۔ سُرخیاں ، لے آئوٹ، مضامین کاانتخاب، ایڈیٹنگ سب کمال، لاجواب۔ عمیر جمیل نے فلک بوس عمارات پر اچھی تحریر رقم کی اور خطوط کی محفل میں تمام مکتوبات اور ان کے جوابات ایک سے بڑھ کرایک تھے اور ہاں، طلعت عمران ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ بہت اچھے طریقے سے مرتب کر رہے ہیں۔ (شمائلہ نیاز،دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)
ج : ہمیں تو محنت و مشقّت کے بغیر گزاری جانے والی زندگی، زندگی ہی معلوم نہیں ہوتی۔ گوشت پوست کا انسان، ہڈ، پیر ہلائےیا اپنا دماغ استعمال کیے بغیر بھلا کیسے زندہ رہ سکتاہے۔ الحمدللہ، ہمیں اپنی ذمّے داریاں بحسن و خوبی نبھانے پرجو ذہنی و قلبی سکون و اطمینان میسّر ہے، اُس کا کوئی مول ہی نہیں۔ اور ہمارے خیال میں تو ہر زندہ انسان کو ایسا ہی ہونا چاہیے، ہاں، خطوط کےجوابات سےسیروں خون بڑھنے والی بات سے تھوڑا اختلاف ہے کہ کبھی کبھی کسی کا سیروں خُون جل بھی جاتا ہے، کیوں کہ ہم تو حق، سچ کہنے سےباز رہ ہی نہیں سکتے۔
باغوں، باغیچوں، چمن زاروں میں بہار
’’ بہت عُمدہ، تسلسل برقراررکھیے محترم۔‘‘ ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے حق دار، عاجز داد فریادی ابنِ غلام نبی کے یہ الفاظ میرے لیے اعزاز سے کم نہیں، ڈھیروں خون بڑھ گیا۔ اور عاجز داد فریادی کا حرف،حرف یہ گواہی بھی دے رہا تھا کہ میرے سوہنے بلوچستان میں کیسے کیسے گوہرِ نایاب بستےہیں۔ اسماء خان دمڑ اِسی صوبے کی بیٹی ہیں اور عاجز داد فریادی بھی اِسی صوبے کا سپوت، میری دُعا اوراُمیدِ واثق ہے کہ بلوچستان کا یہ عاجز باربار’’بزمِ خطوط‘‘ کی کرسیٔ صدارت سنبھالے۔
ساتھ ہی بزم کو رونق بخشی، شمائلہ نیاز، سیّد زاہد علی، رونق افروز برقی، مریم طلعت محمود بیگ، شری مرلی چند، شہنازسلطانہ، پروفیسر شفقت پاشا، نازلی فیصل، اورعبداللہ فاروق نے۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں دنیا کی بدترین قوم بنی اسرائیل کے قصّے کی آخری قسط پڑھی، معلومات میں اضافہ ہوا۔ چاند رات کے حوالے سے محمد عبدالمتعالی نعمان کامضمون شان دار تھا۔
منورراجپوت جب جب آتے ہیں، چھا ہی جاتے ہیں۔ ’’عیدِ غزہ‘‘نہ جانے کیسے قلم بند کیا ہوگا کہ قلم کےبھی آنسو چھلک گئےہوں گے۔ نادیہ ناز کا قلم بھی روشنیاں، خوشبوئیں بکھیرتا آیا کہ ’’عیدِ رمضان آئی اور ماہِ رمضان چلا گیا‘‘۔ ’’عیداسپیشل‘‘ میں رؤف ظفر نے ہردل کی ترجمانی کی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں عالیہ شمیم کا قلمی پارہ ’’عیدِ سعید سے پہلےمحاسبہ کریں‘‘، بلقیس طاہر کے کھاجےاور حکیم حارث نسیم سوہدروی کے مشورے سب لاجواب تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘میں ایڈیٹر صاحبہ کا قلم بھی خُوب جھوما، لہرایا کہ ؎ باہمی رنجشیں بھول کر آملو، توڑ ڈالو، سبھی بیڑیاں عید پر…’’کہی ان کہی‘‘ میں اسناد کی بےتوقیری نہ کرنے والےکفایت رودینی کی داستانِ حیات پیغام دے رہی تھی کہ زندگی، جہدِ مسلسل کا نام ہے۔
اپنی ذات میں انجمن، منورمرزا ’’پاک، افغان تعلقات پر دہشت گردی کےسائے‘‘ کے عنوان تلے باور کروا گئے کہ عام مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد کا افسانہ ’’عید ہوگئی‘‘ اورنظیر فاطمہ کا قلمی نسخہ ’’عید ہے‘‘ دونوں لاجواب تھے۔ طلعت عمران کے مرتب کردہ عید پیغامات ہم سب کے دل کی آواز تھے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے تینوں کردار بھی اپنی مثال آپ لگے۔ شکریہ میڈم، آپ کے اس مخزن کے ذریعے باغوں، باغیچوں، چمن زاروں میں گویابہارسی آجاتی ہے، زندگی خوش گوارلگنےلگتی ہے۔ ہر طرف خوشبوئیں، خوشیاں سی رقص کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج:جی بے شک، ہمارےملک میں بڑا ٹیلنٹ ہے، خصوصاً صوبہ بلوچستان تو اس ضمن میں خاصا زرخیز ہے۔ وہ کیا اقبال نے کہا تھا کہ ؎ نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے… ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔
ایڈیٹنگ کی نذر ہوئی، یا…
میگزین کے آغاز ہی میں منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ کےساتھ موجود تھے۔ کیا اچھا مضمون لکھتے، مدلّل و مربوط تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ پڑھ کربہت خوشی ہوئی کہ پاک، بھارت تجارت کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی نے اچھے انداز میں دوحا کی سیرکروائی۔ویسےانہوں نےدو پیٹی کھجور کیوں خریدلی،اچھا خاصا وزن ہوتا ہے بھئی۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں آپ نے چند سطروں میں ’’امن ایوارڈ‘‘ خُوب شائع کیا۔ پوچھنا یہ تھا کہ یہ تحریر آپ کی ایڈیٹنگ کی نذر ہوئی یا تھی ہی اِتنی مختصر۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کا صفحہ پڑھ کربہت لُطف آتا ہے اور’’ایک پیغام ، پیاروں کے نام‘‘ کے پیغامات بھی بے حد خوشی دیتے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: ’’امن ایوارڈ‘‘ ایک افسانچہ تھا اور افسانچے عموماً اتنے ہی مختصر ہوتے ہیں۔ تحریر کی تھوڑی بہت نوک پلک ضرور سنواری گئی، لیکن ایڈٹ نہیں کی گئی کہ خنساء سعید اچھے افسانچے لکھ لیتی ہیں۔
کم لوگ مہربانیاں کرتے ہیں
سنڈے میگزین میں میری غزل شائع کرنے پر مَیں آپ کا احسان مند ہوں، حالاں کہ مجھ پر بہت کم لوگ مہربانیاں کرتے ہیں، کیوں کہ مَیں بچپن ہی سے یتیم، لاوارث، بےسہارا ہوں۔ مَیں نے اپنے والد کی صُورت بھی نہیں دیکھی کہ وہ میری پیدائش سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے۔ اب تک کی زندگی دنیا کی نفرتوں، مجبوری و بے بسی ہی میں گزاری ہے۔
مارچ 65ء میں میری پہلی غزل ’’شمع‘‘ رسالے میں شائع ہوئی، پھر تقریباً ہر پرچے میں میرا کلام شائع ہونے لگا۔ جون 1970ء میں پہلا شعری مجموعہ ’’بہارِ غزل‘‘ کےنام سے آیا۔ بہرحال، مَیں اِس عنایت پربس، آپ کےحق میں دُعائے خیر ہی کرسکتا ہوں۔ (سیّد سخاوت علی جوہر، کراچی)
ج: آپ کا کلام سو فی صد میرٹ پر شائع کیا جاتا ہے اور ہمارے خیال میں آپ کو اپنی اِس خداداد صلاحیت پر رب کابہت شُکر گزار ہونا چاہیےکہ فی زمانہ مستند شاعر ملتے ہی کہاں ہیں اور ہاں، آپ کو لوگوںسے مہربانیاں کیوں چاہئیں؟ اپنےجیسے انسانوں سے توقعات باندھنے کی بجائے اللہ پر بھروسا کریں، کبھی نااُمیدی نہیں ہوگی۔
شکریے کا موقع…!!
سلام مسنون! ’’مدرزڈے‘‘ کے حوالے سے دو عدد تحریریں حاضرِ خدمت ہیں، شائع کرکے شکریہ کا موقع دیں۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج: ہمیں توحسرت ہی رہ گئی کہ آپ یہ موقع لے لیں۔ حسبِ معمول آپ کی یہ تحریریں بھی ’’مدرز ڈے‘‘ گزرنے کے بعد ہی وصول پائیں، بہرحال، اگلےکسی ایڈیشن میں ایک تحریر پیغام کی صُورت شامل کر لی جائے گی۔
اگلے شمارے میں آجائے گا
’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں یہودیوں کی اسلام دشمنی کا قصّہ بیان کیا گیا۔ معلومات میں سیر حاصل اضافہ ہوا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں محمد ارسلان فیاض نے بلوچستان اسمبلی کاحال احوال بیان کیا، تو موسمیاتی تبدیلیاں کے عنوان سے ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے عمومی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ہمیشہ کی طرح چھائے ہوئے تھے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں پروفیسر نوشابہ صدیقی ادب کے ایک بڑے نگہبان کی کہانی لے کر حاضر ہوئیں۔
’’متفرق‘‘ میں محمّد عمیر جمیل دنیا بھرکی فلک بوس عمارات کا تذکرہ کر رہے تھے، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں زین الملوک نے ایک عظیم استاد کی خصوصیات بیان کیں۔ روبینہ یوسف نے ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سبق آموز افسانہ تحریر کیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات بھی پُراثر تھے۔ اور اب آئیے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، جس میں ہماراخط شامل نہیں تھا، لیکن خیر ہے، ہمیں یقین ہے، اگلے شمارے میں شامل ہوجائے گا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)
ج: جی ہاں، جس تعداد میں آپ کے خطوط وصول پاتے ہیں۔ کسی شمارے میں خط شامل نہ ہونااچنبھے ہی کی بات ہے اور یہ یقین بھی اپنی جگہ سو فی صد درست ہے کہ ’’اگلے شمارے میں شامل ہوجائے گا۔‘‘
ایک ماہ کا وقت
ہمارے بڑے ہمیشہ ہی ہمیں قہقہہ لگانے سے منع کرتے تھے کہ اِس طرح دل مُردہ ہوجاتا ہے، دراصل قہقہہ موت کو بُھلا دیتا ہے۔ اورآج ہمیں بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اب تو قہقہے ’’ہا ہا ہا ہا…‘‘ کی صُورت تحریروں میں بھی آنے لگے ہیں۔ ایک گزارش اور کرنا چاہتی ہوں، جو پہلے بھی کرچُکی ہوں، مگرشاید وہ خط محکمۂ ڈاک کی نذر ہوگیا کہ تاحال جواب نہیں ملا۔
گزارش یہ ہےکہ کسی بھی موقعے کی مناسبت سے آپ پیغامات بھیجنے کی جو مہلت دیتی ہیں، وہ بہت کم ہوتی ہے۔ کم سے کم ایک ماہ کا وقت تو دیا کریں۔ ویسے تو اہم مواقع ہمیں خُود ہی یاد رکھنے چاہئیں، لیکن عموماً آپ کا اعلان دیکھ کر ہی یاد آتے ہیں اور پھر ہم کفِ افسوس ہی ملتے رہ جاتے ہیں۔ (معصومہ، حیدر آباد)
ج:بعض اوقات اتنے کم وقت میں بھی اتنے زیادہ پیغامات وصول پاتے ہیں کہ ہمیں دو سے تین صفحات میں شایع کرنے پڑجاتے ہیں، جب کہ ہم پہلے ہی صفحات کی کمی کا شکار ہیں۔
فی امان اللہ
چلتے چلتے جو قدم رُک رُک جاتے ہیں، مُڑ مُڑ کرجو دیکھتے ہیں، تو آپ ہی کی محفل میں، وہ کیا ہے کہ ؎ کبھی ہم بھی، تم بھی تھے آشنا…ہمارا نام ادب نواز دوستوں کی صُورت جگمگاتا نظر آتا ہے۔ ہم توسمجھے کہ ہم اِک بھولی بسری یاد بنے، وہ محفل چھوڑ چُکے، جہاں روز روز کا آنا جانا تھا، مِلنے جُلنے کا بہانہ تھا، ’’کچھ اپنی کہو، کچھ میری سُنو‘‘ کا فسانہ تھا، لیکن یہ محض خام خیالی تھی۔ ہمارے مہربان و قدردان، ہمارے خطوط اور اُن کے جوابات، بغور پڑھتے ہوئے، کسی نہ کسی صُورت ہمیں آواز دے کر واپس بلا ہی لیتے ہیں۔
دراصل یہ خطوط ادبی شناسائیاں لیے زندگی کا وہ بیش قیمت سرمایہ، یادوں کامجموعہ، گزرتے لمحوں کا عکس، اورحال کا احوال کہتے، ماضی و حال کا سنگم بنے خزینے ہیں کہ جن کا کوئی مول ہی نہیں۔ 17 مارچ کواپنے خط پرشمائلہ نیاز کی تعریف و توصیف نےاپنے ساتھ کئی اور بُھولے بسرےچہرے بھی یاد دلا دیئے۔
پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی یہ کہتےنظرآئے ؎ ہم رُوحِ سفر ہیں، ہمیں ناموں سے نہ پہچان… کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ۔ تو سلیم راجا خُود ہی’’مسندِ خاص‘‘ چھوڑ کر’’قصۂ پارینہ‘‘ ہوئے۔ اسماء دمڑ کا’’ویاہ ویاہ‘‘ کا شورشرابا بھی جانے کن جھمیلوں میں دَب گیا۔
وہ نام، جو جانِ روحِ محفل تھے، خواب وخیال ہوئے اور ہمارے لیے بھی، جو صفحہ تسکینِ قلب وجاں تھا، مصروفیات کی دوڑ میں بس ایک سلسلہ ہی رہ گیا۔ رونق افروز نے ہم سے ہدایت نامے پرعمل درآمد کا پوچھا، توعرض ہے، کبھی آپ فائنل اورہم اِسی دوڑ میں سیمی فائنل میں کھڑے ہوتے تھے، پر آج ہم لاہورہی میں منجمد سے رہ گئے۔ وہ ہفتوں کی لاہور سے کراچی کی دوڑ، مہینوں پر چلی گئی۔
پرنس افضل شاہین کا ہمارے خط اور ایڈیٹر کے جواب پر پسندیدگی کا اظہار، جب کہ ڈاکٹر تبسّم کا اپنی اعزازی چٹھی میں ’’نازلی فیصل کا فلسفیانہ تبصرہ‘‘ لکھنا، ہمیں ایک دفعہ پھر شاملِ محفل کر گیا۔ بات یہ ہے، نرجس ملک! آپ نے نفرتوں کی سرزمین پر، محبّتوں کی پھوار سے ایک سبزہ زار پھیلایا ہےکہ قدم نکلنےکی کوشش میں بھی دھنس دھنس جاتے ہیں۔ نرجس مختار نے کہا کہ ’’مسند والی چٹھی ہمیں لکھنے نہیں آتی۔‘‘ اِس پر ایڈیٹر کی حاضر جوابی و انکساری کہ’’لکھنی تو ہمیں بھی نہیں آتی‘‘ خُوب لُطف دے گئی۔
دونوں ہم نام اورجواب، نہلے پہ دھلا، بہت خوب۔ اور پھر ’’اسٹائل بزم‘‘میں یپرہن کے رنگوں نے دروازہ کھولا، تو اشعار سے سولہ سنگھار کیےتحریر نے گویا ساری محفل کو خوشبوئوں سےمہکا دیا۔ سلمیٰ اعوان کی تحریر پڑھ کر، موت کا سالرزہ سا طاری ہوگیا۔ ان ہی بداعمالیوں کا ہل چلا کر تو ہم نےآخرت کی کھیتی کو اس قدر بنجر و ویران کر دیا ہے۔ ’’بے شک، انسان خسارے میں ہے‘‘۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں رشتوں کی ڈور سے بندھے لوگوں سے متعلق پڑھا، جو بعد ازمرگ بھی کچھ نہ کچھ سکھاتے ہوئے امر ہوجاتے ہیں۔
عید پیغامات نے بھی دل شاد کیا۔ لیکن آج کےسلگتے موضوع ’’یہودیوں کی اسلام دشمنی کا تذکرہ‘‘ پڑھ کر تو ڈھے سی گئی۔ وہ دشمنی،جوآج بھی اسرائیلی بھیڑیوں کے پنجرےمیں قید فلسطینیوں سےنبھائی جارہی ہے۔ اور اِس نسل کُشی پر57 اسلامی ممالک نے پنجرےپر جو’’مجرمانہ خاموشی کا تالا‘‘ لگا رکھا ہے، اُس کا حساب بھی روزِحشردینا ہوگا۔
وہ کیا ہے کہ ؎ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے…وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے…جو لوحِ ازل میں لکھا ہے…جب ظلم وستم کےکوہِ گراں…روئی کی طرح اُڑجائیں گے…ہم محکوموں کے پائوں تلے…جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی…اور اہل حَکم کے سر اُوپر…جب بجلی کڑکڑ کڑکےگی… سب تاج اُچھالےجائیں گے…سب تخت گرائے جائیں گے…اور راج کرےگی خلقِ خدا…جو مَیں بھی ہوں اورتم بھی ہو…لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: سیمی فائنل، فائنل چھوڑیں، آج تو آپ کرسیٔ صدارت پرمتمکّن ہیں۔ ہاں، مگر آج بھی آپ نے ہماری شرائط پرعمل نہ کیا۔ خط توعُمدہ لکھا، مگرحسبِ عادت حاشیہ، سطر چھوڑنے کا تردّد پھر نہیں فرمایا۔
* ایک چھوٹی سی گزارش ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہر مضمون کے ساتھ لکھاری کا پورا ایڈریس بھی شائع کیا کریں اور باقی رہا جریدے پر تبصرہ، تو وہ پھر کبھی سہی۔ (محمّد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)
ج:جو لوگ تحریر کے ساتھ پورا پتا لکھ کر ہی نہ بھیجیں، تو اُن کے ایڈریسز کی تلاش میں کیا ہم جنگلوں میں نکل جائیں۔ جب کہ یہاں حال یہ ہے کہ پورا پتا لکھنا تو کُجا، بیش ترلوگ اپنی تحریروں کے ساتھ اپنا نام تک لکھنا بھول جاتے ہیں۔
* آپ نے بلاجھجک اظہارِ رائے کی دعوت دے ہی ڈالی ہے، توعرض کیے دیتے ہیں کہ خدارا! اس اچھے خاصے معیاری جریدے کے نظربٹّو سلسلے ’’پیارا گھر‘‘ کو بند کردیں۔ اکثر قارئین سے صفحات کی کمی کی شکایت سُننے کو ملتی ہے، تو اُس کا بھی کچھ ازالہ ہو جائےگا، اور کسی معیاری سلسلے کے لیے جگہ بھی بن جائے گی۔ کیوں کہ ’’پیارا گھر‘‘ میں جس قسم کی تحریریں شائع ہوتی ہیں، وہ ہر دوسرے میگزین میں مل جاتی ہیں۔
جب کہ کچھ تحریریں تو بالکل بچگانہ اور بسااوقات بےمعنی و بے مقصد سی ہوتی ہیں۔ اِس دور میں ریسیپیز کے لیے لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، پھر دیگر تحریریں بھی محض خانہ پُری ہی لگتی ہیں۔ کسی لکھاری کی تخلیقی صلاحیتوں کو نہیں اُبھارتیں، جیسا کہ ڈائجسٹ کی تحریریں۔ یقین مانیے، یہ تنقید برائے تنقید نہیں، مخلصانہ رائے ہے۔ آپ چاہیں تو، قارئین کی رائے جاننے کے لیے ایک پول کروا لیں۔ (مشرقی لڑکی، الرحمان گاڑدن، لاہور)
ج: تمھارا قلمی نام تو’’مغربی لڑکی‘‘ ہونا چاہیے، جیسے تم اِس مشرقی سے صفحے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑگئی ہو۔ ہم کیا پول کروائیں بھئی، پچھلے کوئی 10،12 برس سے تو یہ صفحہ شایع ہورہا ہے، اورآج یہ پہلا خط اِس کے خلاف آیا ہے، وگرنہ تو آج تک ہم نے صرف توصیفی خطوط ہی دیکھے ہیں۔
* سنڈے میگزین کے ”عید اسپیشل“ کا مطالعہ کافی معلوماتی اوردل چسپ رہا۔ لگ بھگ تمام ہی مضامین عیدالفطر کے موقعے کی مناسبت سے اور جریدے کے شایانِ شان تھے۔ (خضر حیات، کراچی)
ج: بہت شکریہ جی۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk