السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
لائن بہت پسند آئی
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں متبرک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھے۔ نومبر الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کاپڑھا۔ جی ہاں، اُن کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا ہے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں یہ پڑھ کر بہت تشویش ہوئی کہ پاکستان میں سالانہ پانچ لاکھ افراد ٹی بی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اللہ پاک ہم پر اپنا خاص فضل فرمائے۔’’غزوۂ بدر:رسول اکرمﷺ کی دفاعی اور جنگی حکمتِ عملی کا عظیم مظہر‘‘ لاجواب تحریر تھی۔ بےشک، حضور پاک ؐ کا ہرعمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے ۔
’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ میں لکھی یہ لائن مجھے بہت پسند آئی کہ ؎ خمیر میرا اُٹھا وفا سے، وجود میرا فقط حیاسے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ویژول آرٹس کے شعبہ گرافک ڈیزائننگ کی چیئر پرسن، پروفیسرعائشہ صدیقہ نےاپنےانٹرویو میں فرمایا کہ ’’حکومت سرپرستی کرے تو پاکستان اس شعبے سے کروڑوں ڈالر کما سکتا ہے۔ تو بھئی، کوئی حکومت کے بھی تو کان کھولے۔ 23؍مارچ کی ہماری قومی و سیاسی تاریخ میں اہمیت تو شاید رہتی دنیا تک رہے گی۔
اِس بارخطوط کی محفل میں ناچیز کا خط بھی شامل تھا، بہت بہت شکریہ۔ اگلےشمارے میں ’’فتحِ مکّہ، فتوحات کی عالمی تاریخ میں ایک منفرد اور بےمثال واقعہ‘‘ ایک اور مثالی تحریر تھی۔
واقعتاً اس فتح پر ساری دنیا اب تک حیران وششدرہے۔ رؤف ظفرنے بہترین موضوع پرقلم کشائی کی۔ ’’پیوٹن کی جیت، مغرب کے لیےواضح پیغام‘‘ عُمدہ تجزیہ تھا۔ مجھے تو لگتا ہے، پیوٹن روس کے تاحیات صدررہیں گے اور ہاں، اس بار رافع حسین کی ای میل واقعی بہت شان دار تھی، انہیں چاہیے کہ وہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے بھی کچھ لکھیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)
ج:عمومی طورپرنوٹس کیا ہےکہ بیشتر حضرات و خواتین شرم و حیا، حجاب و پردے سےمتعلق کافی مثبت سوچ اورآراء رکھتے ہیں، توپھرپتا نہیں، اِس بڑھتی ہوئی بےحیائی اور بے راہ روی کا محرّک کون ہے۔
ماڈلز کتنی لکی ہیں
کیسی رہی آپ کی عید، یقیناً بہت مصروف اور بہت اچھّی گزری ہوگی۔ کافی ہفتوں سے آپ کو خط نہ لکھ سکی، دراصل مصروفیات ہی کچھ ایسی تھیں، مگریقین کریں، دل ودماغ میں آپ کا خیال رہتا تھا۔ اورہمارےگھر میں سنڈے میگزین ہمہ وقت موجود رہتا ہے (واہ) خیر، اب جو سنڈے میگزین ہاتھ آیا، تو سب سے پہلے سلسلے وار مضمون ’’قصّہ یہودیوں کی اسلام دشمنی کا‘‘ پڑھنے کوملا۔ ’’بلوچستان اسمبلی کی دل چسپ تاریخ‘‘ ہنوز نہیں پڑھ سکی۔
ہاں، موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پڑھ کر تو دل ہی دہل گیا کہ پاکستان کا شماراُن دس ممالک میں ہوتاہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہیں۔ سخت معاشی فیصلوں پر عوام کواعتماد میں لیناہوگا۔ منور مرزا نے ہمیشہ کی طرح انتہائی شان دار و جان دار تجزیہ کیا۔ آہ! ڈاکٹر جمیل جالبی، ادب کے ایک بڑے نگہبان، مَیں نے بس اُن کے بارے میں پڑھا ہی ہے، مگر پروفیسر نوشابہ صدیقی نے تو حق اداکردیا۔ اور اب ہم پہنچ گئے ہیں، جی، جی، آپ بالکل صحیح سمجھیں، آپ کی منفرد اورخُوب صُورت تحریر پر۔ اُف! کیا لکھتی ہیں۔
اور میں سوچتی ہوں، یہ ماڈلز بھی کتنی لکی ہیں، جن کے شُوٹس پرآپ لکھتی ہیں۔ بخدا ہر تحریر بار بار پڑھتی ہوں، کیا شعر و شاعری کا انتخاب ہوتا ہے، واہ جی واہ.!! دل سےفین ہوں میں آپ کی۔ مضمون ’’فلک بوس عمارات‘‘ ابھی پورا نہیں پڑھا۔ ہاں، ’’عظیم اُستاد کی خصوصیات‘‘ بہت توجّہ سے پڑھیں کہ آخر ہم بھی تو ایک اُستاد ہیں۔ آہمممم… ’’ڈائجسٹ‘‘ میں روبینہ یوسف کی تخلیق اچّھی تھی اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ لاجواب انداز سے ترتیب دیا گیا۔ (نازجعفری، بفرزون، کراچی)
ج : ارے… ہم ماڈلز پر کب لکھتے ہیں، ہم تو زیادہ تر آپ جیسی لڑکیوں بالیوں پرلکھتے ہیں اور بہت ہی دل سے لکھتے ہیں۔ تب ہی توہماری ہر تحریر سیدھی آپ کے بھی دل میں اُترتی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے۔
فلاحِ انسانی کاذکر
آپ کے میگزین میں کوئی ایسا مضمون نہیں ہوتا، جس میں فلاحِ انسانی کا ذکر ہو۔ ہر ہفتے کم ازکم ایک ایسے ہیرو کی کہانی ضرور شائع کیا کریں، جس نے بنی نوع انسان کے لیے کوئی خدمت انجام دی ہو، تاکہ نوجوان جب ایسی نگارشات پڑھیں تو اُن کے دل ودماغ میں بھی خدمتِ انسانیت کےجذبات بےدار ہوں۔ اپنی ایک غزل بھیج رہا ہوں، اُمید ہے، حوصلہ افزائی فرمائیں گی۔ (درپن جاندہ، عسکری 2، گوجرانوالہ کینٹ)
ج: ہماری اکثر و بیش تر بلکہ زیادہ ترنگارشات کسی نہ کسی صُورت فلاحِ انسانی ہی کا فریضہ انجام دےرہی ہوتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر تحریر کے ماتھے پر ’’فلاحِ انسانی‘‘ لکھا جائے، دراصل اُن سے حاصل ہونے والا سبق اوردرس اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اورچشمِ بد دُور، آپ کی غزل تو کسی شاعر کو دکھانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ صرف ناقابلِ اشاعت نہیں، ’’حد درجہ ناقابلِ اشاعت‘‘ ہے۔
ویسے تو پوری غزل ہی ’’شاہ کار‘‘ ہے، لیکن نمونے کے طور پردواشعار نقل کیے دیتے ہیں ؎ آپ کو تو مَیں نے دیکھا ہے خوابوں میں…تُو بستر پہ سوتی تھی، حیا کے حجابوں میں…اگر آپ نے مجھ کو مِس کال نہ کی…پھر تو میں ڈوبوں گا، مئے کے تالابوں میں۔ (واللہ، کیا ہی فلاحِ انسانی سے سرشار غزل ہے)۔
کھانے پینے کا سلسلہ؟
سنڈے میگزین کا ’’عید الفطرایڈیشن‘‘پڑھا۔ منور راجپوت اور رؤف ظفر کے مضامین پڑھنے سے تعلّق رکھنے تھے کہ انتہائی اچھے انداز میں تحریر کیےگئے۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں بلقیس طاہر نے شیر خُرمے، ربڑی کھیر اور شاہی ٹکڑوں کی انتہائی لذیذ تراکیب پیش کیں۔ بخدا، مزہ آگیا، شکریہ میڈم۔ سرِورق بھی بہت ہی پیارا تھا، حالاں کہ ہمارے یہاں اخبار کے ساتھ جو میگزین آیا، اُس کے کلرز بالکل فیڈ تھے، سب تصویریں ڈبلنگ کا شکار نظر آئیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے پاک، افغان صُورتِ حال کابے مثال تجزیہ کیا۔ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں تو اس مرتبہ تین تین افسانے پڑھنے کو مل گئے۔
بھئی واہ!! ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ بہترین انداز سے مرتّب کیا گیا۔ اور ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں ایک بار پھر شہناز سلطانہ کا خط شامل تھا، حیرت ہے۔ اگلے جریدے کے صفحہ ’’یادداشتیں‘‘ میں پروفیسر نوشابہ صدیقی نے ڈاکٹر جمیل جالبی پر بہت ہی عُمدہ مضمون لکھا، ہمیں بہت پسند آیا۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں کھانے پینے کاکوئی سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے آگے بڑھ گئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں غالباً پہلی مرتبہ اتنا طویل افسانہ پڑھنےکوملا۔
ویسے روبینہ یوسف نے ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کاواقعہ سبق آموز تھا ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کادوسراحصّہ بھی عُمدگی سے ترتیب دیا گیا۔ اور’’آپ کاصفحہ‘‘ میں کافی عرصے بعد چاچا چھکن کی آمد ہوئی۔ گزارش ہے، آتے جاتے رہا کریں چاچا جی۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی )
ج:یہ انتہائی لذیذ تراکیب آپ ٹرائی بھی کرتے ہیں یا تصاویر دیکھ دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہتے ہیں۔ اور اگر چاچا جی نے بھی جواباً کہہ دیا کہ ’’ماماجی! آپ نے ہی ہر ہفتے اِس قدر ’’رونق‘‘ لگارکھی ہوتی ہے کہ دوسروں کی کمی محسوس ہی نہیں ہونے دیتے‘‘ تو پھر کیا جواب دیں گےآپ؟
شفقت فرمائیں گی
’’یومِ مئی‘‘ کے حوالے سے ایک تحریر بعنوان ’’اسلام میں محنت کش کا مقام‘‘ حاضرِ خدمت ہے ۔ اُمید ہے، شفقت فرماتے ہوئے شائع کریں گی۔ بلاشُبہ جنگ، سنڈے میگزین اپنی خُوب صُورت تحریروں کے سبب ایک خاص مقام رکھتا ہے اور اِس ضمن میں آپ اور آپ کی پوری ٹیم کی کاوشیں اورمحنت قابلِ تحسین ہے۔ دُعا ہےکہ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید ہمّت و استقامت عطا فرمائے تاکہ قارئین کو مزید معلوماتی، اُجلی تحریریں پڑھنے کو میّسرآتی رہیں۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج : ارے بھئی، اپ ہمیں شفقت و کرم فرمائی کا موقع ہی نہیں دیتے۔ اگر آپ کی کوئی تحریر قابلِ اشاعت ہوتی بھی ہے، تو وہ عموماً ہماری کاپی پریس جانے کے بعد وصول پاتی ہے۔ بارہا تنبیہ کے باوجود آپ تحریر بھیجنے کا شیڈول درست نہیں کرپارہے۔ اگر کسی ایونٹ کی مناسبت سے کوئی مضمون بھیجتے ہیں، تو براہِ مہربانی کم سے کم ڈیڑھ ماہ قبل روانہ فرمائیں۔
لاگ لپیٹ، ملحوظِ خاطر
آپ سے ایک مودبانہ گزارش ہے کہ جواب دیتے ہوئے لاگ، لپیٹ ملحوظِ خاطر رکھا کریں کہ آپ نے تو ضرور ہمیں کُھلی چُھوٹ دی ہے کہ ہم لاگ لپیٹ کے بغیر سب لکھ بھیجیں، لیکن ہم نےآپ کو کبھی یہ آفرنہیں دی۔ عوام پہلے ہی سخت پریشان ہیں کہ ہرچیز کی قیمت آسمان کو چُھو رہی ہے۔
سرکاری اسپتال، درس گاہیں زبوں حالی کا شکارہیں اور اوپر سے آپ کے تلخ جوابات، براہِ مہربانی ’’ہتھ ہولا ایڈیٹر‘‘ ہی رہیں اور جوابات دیتے ہوئے عوام کی حالت کو بھی ذہن میں رکھا کریں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: عوام کی ظاہری حالت تو ذہن میں رہتی ہے، لیکن ہمیں آپ کی ذہنی حالت کا بھی اندازہ ہے۔ آپ کو لاگ لپیٹ کے بغیر مندرجات پر تبصرے کی دعوت دی گئی ہے، نہ کہ اونگیاں بونگیاں مارنے کی۔ ہربارایک جیسی بےکار باتیں کرتے کرتے آپ تھکتے نہیں۔ ابھی توہتھ ہولا نہیں رکھا جاتا، اگرکُھلی چُھوٹ دے دی گئی، تو نہ جانے آپ جیسے اور کتنے سر پہ سوار ہوجائیں گے۔ عوام بھی صُبح و شام منہگائی، منہگائی کا راگ الاپنےکی بجائے اگر محنت ومشقت پرکچھ فوکس کرلیں، تو نہ صرف مُلکی حالات بہتر ہو جائیں گے، بلکہ منہگائی بھی زمین پر آرہے گی۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
10 اپریل کا رسالہ موصول ہوا۔ سرِورق پر چندن کی پوشاک پہنے ماڈل براجمان تھیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ یہودیوں کی اسلام دشمنی کا‘‘ کی پہلی قسط پڑھی۔ سچ ہے، نافرمانی، بدقماشی، عہد شکنی ان کی گُھٹّی میں پڑی ہے۔ جس نبی کی آمد کا انتظار کرتے اُن کی کئی نسلیں گزر گئیں، جب وہ تشریف لائے، تو غرور، ہٹ دھرمی کے سبب، سب جانتے ہوئے بھی ماننے سے انکار کردیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ’’اے محبوب ﷺ یہ آپ کو اس طرح پہچانتے ہیں، جیسے اپنی اولاد کو، مگر نسلی فخر کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔‘‘
تو یہ بدبخت قوم تو اپنے انبیاءؑ سے اعراض کرتی رہی، حتیٰ کہ اُنہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ ظلم و ستم اِن کی سرشت میں شامل ہے، تو پھر آج اہلِ فلسطین کے معاملے میں اِن سے کسی بھی بھلائی کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں محمّد ارسلان فیاض، بلوچستان اسمبلی کی تاریخ بیان کر رہے تھے، جب کہ ڈاکٹر ایم عارف سکندری موسمی تبدیلیوں کے صحت پر اثرات سے بچاؤ کے لیے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کامشورہ دیتے دکھائی دیئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بھرپور انداز سے معاشی حالات کی خرابی کا جائزہ لیا۔ حُکم رانوں کے لیےعُمدہ مشورے بھی دیئے، مگر تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ ؎ آئے بھی وہ، چلے بھی گئے، یاں کسے خبر۔ عوام کی قسمت نہ بدلی ہے، نہ بدلےگی۔
’’یادداشتیں‘‘میں پروفیسرنوشابہ صدیقی، شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر فائز ایک بڑے ادیب و ماہرِ تعلیم ڈاکٹر جمیل جالبی کے حُسنِ کارکردگی پر سیر حاصل، معلوماتی مضمون لائیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری دھرتی اب بانجھ ہوگئی ہے، ایسی صلاحیتوں سے معمور ہستیاں اب کیوں ناپید ہیں۔ ایسا نہ ہوتا، تواِس قدر نااہل لوگوں کو اعلیٰ مناصب پر براجمان نہ دیکھتے۔ بھٹّو دَور کا ایک واقعہ ہے۔ سندھ یونی ورسٹی میں بڑی ہلڑبازی تھی، تعلیمی نظام درہم برہم ہوکے رہ گیا تھا کہ ایسے میں بھٹّو صاحب نے اپنے سخت سیاسی مخالف، شیخ ایاز کو یونی ورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کردیا اور پھر اُنہوں نےاپنی انتظامی صلاحیتوں سے سارا ماحول ہی بدل کے رکھ دیا۔
نہ صرف تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوئیں، جامعہ کی کارکردگی بھی مثالی ہوگئی۔ مطلب یہ کہ اگر حُکم ران نیک نیّت ہوں اوراہل لوگوں کو اُن کا مقام دیں، تو اداروں کی نہیں، مُلکوں کی تقدیریں سنور جاتی ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں اس بار ایڈیٹر صاحبہ نے لڑکیوں کےجذبات واحساسات، خوابوں، آرزوؤں، اُمنگوں کی خُوب ترجمانی کی اوراس حوالے سے مشہور شعراء کے بہترین اشعار بھی نقل کیے۔ ویسے آپ کی بیاض ہےکہ عمروعیّار کی زنبیل، ہر ہفتے اِک نئے موضوع پر کیا کیا کچھ نہیں نکل آتا۔ اور ہاں بھئی، یہ معمّا تو فلسفیوں اورنکتہ وَروں سے حل نہ ہوا، سو ہمیں بھی تسلیم ہے کہ عورت، سمندر سے ڈونگی، ہمالیہ سے اونچی ہے۔
’’متفرق‘‘ میں محمّد عمیر جمیل فلک بوس عمارات کی تفصیل لائے، اچھا مضمون تھا، مگر کیا اِن بلند و بالا عمارات کے معماروں نے کبھی اُن سے متعلق بھی کوئی سوچ بچار کی کہ جن کا مقدر ہی بھوک و ننگ ہے، جنہیں سر چُھپانے کا ٹھکانہ، دو وقت کی روٹی بھی میسّر نہیں، کُجا کہ وہ ان اونچی اونچی فصیلوں پر نگاہ کریں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں زین الملوک ایک عظیم استاد کی خصوصیات بیان کر رہے تھے۔ مگر ہمارے یہاں تو اس مقدّس پیشے کو سیاست نےمکدّرکردیا ہے۔
خصوصاً نجی اسکولوں نے توخالص تجارتی رویّہ اختیارکررکھا ہے۔ مبشرہ خالد شدید مسابقت کے ماحول میں نوجوانوں کو ترقی وکام یابی کے گُر بتا رہی تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں روبینہ یوسف دولت ودنیا کی ہوس میں مبتلا ایک فراڈی شخص کےعبرت ناک انجام سے روشناس کرواگئیں۔ واقعی، اللہ باقی مِن کُل فانی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ہیومیو ڈاکٹر شمیم نوید پھر ایک آپ بیتی کے ساتھ موجود تھے۔
پوچھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس کیا ناقابلِ فراموش واقعات کا کوئی ذخیرہ ہے۔ ہمیں تو اپنی پچھتّر سالہ زندگی میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا یاد نہیں۔ اور اب آپہنچے ہیں، اپنے باغ و بہار صفحے پر۔ اعزازی چٹھی عشرت جہاں کے نام رہی اور سو فی صد درست ہی رہی۔ وہ کیاہےکہ ؎ حق بہ حقدار رسید۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)
ج : اب یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے، کوئی بالکل سیدھی، ہم وار زندگی جیے جاتا ہے، تو کسی کی زندگی ناقابلِ فراموش حالات و واقعات کا مجموعہ ٹھہرتی ہے۔ ویسے اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ حسّاسیت اورعُمدہ یادداشت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
گوشہ برقی خطوط
* آپ کا مرتب کردہ خطوط کا صفحہ ایک عرصے سے ہر ہفتے بڑی دل چسپی سے پڑھتا چلا آرہا ہوں۔ آپ کے پاس جو خطوط پاکستان بھر سے آتے ہیں، اُن کا انتخاب آپ بڑی احتیاط سے کرتی ہیں اور مجھ خادم سمیت ہر دل چسپی رکھنے والا شخص اُنھیں ضرورپڑھتاہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ مارچ 2024ء میں پورے پاکستان سے خطوط کی گویا بارش سی ہو رہی ہے، جیسے ساون کے موسم میں بادل گھر گھر آتے ہیں۔
بس، فرق یہ ہے کہ ساون میں بارش سے فضا خوش گوار ہوجاتی ہے۔ لیکن یہاں خطوط کی بارش مُلک میں عجب ہی رنگ دکھا رہی ہے۔ یہ ججز کی طرف سے جو خطوط شروع ہوئےہیں، اُن سے مُلک دشمن تو یقیناًخوش ہوں گے،مگر ہرمحبِ وطن خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اِن خطوط کے معاملے پر اعلیٰ عدلیہ اور مُلک کی نومنتخب حکومت کے اجلاس ہو رہے ہیں، تو تحقیقات کے لیے کمیشن بنائے جا رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ سوموٹو بھی لے رہی ہے، سوچنے والی بات یہ ہے کہ اِن تمام باتوں اورخطوط کی بارشوں سے بھلا مُلک اور مُلک کے 25 کروڑ عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔
اکیسویں صدی میں ہم کہاں کھڑے ہیں، دیکھ کر سخت اذیت ہی ہوتی ہے۔ عام انتخابات کے بعد عوام کی اکثریت منتظر تھی کہ ہمیں جلد ازجلد منہگائی، بھوک، افلاس، بےروزگاری کی دلدل سے نکالا جائے گا، مگر یہاں تو ’’خطوط، خطوط ‘‘ کھیلا جا رہا ہے۔ ایڈیٹر صاحبہ! میری تودُعا کہ ہے اللہ ہم سب کو مُلک کےحق میں نیک راہ دکھائے، آمین (علی اوسط جعفریسیکٹر5-C/3 ، نارتھ کراچی، کراچی)
ج: ارے بھئی، آپ نے کہاں’’سنڈے میگزین‘‘ کے مندرجات پر لکھے گئے بے ضرر سے خطوط کواعلیٰ عدلیہ کےخطوط سےمِلادیا۔ پلیز، اِس معصوم سے’’فیملی میگزین‘‘ اور چاہت و محبّت کے جذبات سے گندھی اِس بزم کو تو ہر طرح کی گندی سیاست سے پاک ہی رہنے دیں۔
* سنڈے میگزین کا پرانا قاری ہوں اور ہر ہفتے جریدے کا مطالعہ انتہائی ذوق و شوق سے کرتا ہوں۔ ایک درخواست ہے، ناقابلِ فراموش اور کہی ان کہی کےسلسلے مستقل شامل رکھا کریں۔ (انید رحمان، لاہور)
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk