• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: منظر الحق

صفحات: 544، قیمت: 2000 روپے

ناشر: آزاد پبلی کیشنز، بُک مال، تھرڈ فلور، دُکان نمبر 310، اردو بازار، کراچی۔

فون نمبر: 2666779 - 0321

اِس شان دار سفرنامے کے مصنّف پیشے کے لحاظ سے سرجن ہیں اور شاید برطانیہ میں مقیم ہیں۔وہ’’ دو بہنیں‘‘ کے عنوان سے ایک ناول بھی لکھ چُکے ہیں، جس نے ادبی حلقوں سے سندِ قبولیت بھی حاصل کی۔

زیرِ نظر کتاب سے متعلق اُن کا کہنا ہے کہ’’ اِس میں مختلف ممالک کے تاریخی پس منظر، وہاں کی معاشی و معاشرتی زندگی اور حالاتِ حاضرہ پر اچٹتی سی نظر ڈالی گئی ہے، اِس کا اصل مقصد قاری کو اپنے ساتھ ان علاقوں کی سیر کروانا ہے۔جب کہ اِس سفرنامے کا ایک اہم مقصد بچّوں، نوجوانوں اور بزرگوں میں سفر کا شوق اجاگر کرنا بھی ہے۔‘‘یقیناً وہ اِن دونوں مقاصد کے حصول میں کام یاب رہے ہیں۔

یہ سفر نامہ19 ابواب یا حصّوں میں منقسم ہے۔ اس کا آغاز سفرِ حج کی رُوح پرور رُوداد سے کیا گیا ہے، جس کے دَوران جہاں وہ ارکانِ حج کی ادائی اور مدینۃ المنوّرہ کی حاضری کا ایمان افروز تذکرہ کرتے ہیں، وہیں زائرین کی کم علمی اور بدنظمی وغیرہ پر کڑھتے بھی نظر آتے ہیں۔ ایک موقعے پر وہ ’’ تھیلی تراشی‘‘ کا بھی نشانہ بنے، جس کے سبب اُنھیں خاصے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، مگر اِس پر صبر و تحمّل کا رویّہ اپنایا اور یہ صبر اُن کی کتاب میں بھی نظر آیا، جہاں چند سطور میں اِس واردات کا ذکر کرکے آگے بڑھ گئے، اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا، تو صرف اِسی ایک واقعے پر پورا باب باندھ دیتا۔

حج کے بعد بیتُ المقدِس کی مقدّس فضاؤں کا احوال ہے، جو برسوں سے غم گین و اداس بھی ہے۔اِس سفر میں قارئین کی دِل چسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستانی شہریوں کا وہاں جانا ممکن نہیں، اِس لیے اردو زبان میں فلسطین کے سفرنامے کم کم ہی ملتے ہیں۔(پاکستانی کسی اور مُلک کے پاسپورٹ پر وہاں کا سفر کرسکتے ہیں)۔ 

بعدازاں، مصنّف قارئین کو گلگت، ہنزہ، ملتان، بہاول پور کی سیر کرواتے ہوئے مصر لے جاتے ہیں۔اگلی منزل بالی، انڈونیشیا ٹھہری، اس کے بعد فلوریڈا اور جزائرِ غرب الہند کی دِل چسپ باتیں ہیں۔سفر ابھی جاری ہے اور قارئین اُن کے ساتھ جنوبی افریقا میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں، وہاں سے چلے تو یونان میں پڑاؤ ہوا، اگلا سفر بارسلونا سے لندن تک کا ہے۔ اب وہ بنکاک روانہ ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی سنگاپور کی بھی سّیاحت ہوگئی۔ جرمنی، آسٹریا، اٹلی اور کروشیا کے بعد دبئی کا تذکرہ ہے۔ اگلے صفحات میں سوئیڈن، یونان اور الاسکا کے دِل فریب نظارے ہیں۔ 

آخر میں ’’تصویری منظر نامہ‘‘ کے تحت251 رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں، جن میں مصنّف سے زیادہ مقامات کی تصاویر ہیں، جو کہ ایک اچھی روایت ہے۔ اِس سفرنامے میں مختلف مقامات و شخصیات سے وابستہ داستانیں ہیں، تاریخ و تجزیہ ہے، مشاہدات و تجربات ہیں، خُوب صُورت منظرکشی ہے، جان دار مکالمے ہیں اور سب سے بڑھ کر دِل چُھو لینے والا انداز ہے۔ اور یہ سب مل کر اِس سفرنامے کو واقعی سفرنامہ بناتے ہیں کہ آج کل سفرناموں کے نام پر محض مضامین یا معلوماتِ عامّہ کی کتابیں ہی لکھی جا رہی ہیں۔ مصنّف سے وابستہ کئی افراد کے تاثرات بھی کتاب کا حصّہ ہیں، جنھوں نے اُن کے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے تصنیفی سفر جاری رکھنے کی توقّع کی ہے۔