تحریر: نرجس ملک
ماڈل: علینہ خان
ملبوسات: ایس۔ کے سعد خان کلیکشن
آرائش: Sleek By Annie
عکّاسی: ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
کسی خاتون کے بطور شریکِ حیات (نصف بہتر) انتخاب کے ضمن میں، مَردوں کو خبردار کرنے کے لیے ایک انگریزی پوسٹ (تحریر، اقتباس) لکھی گئی، جس کا ترجمہ ’’کچھ یوں کیا جاسکتاہے کہ ’’اگر آپ اپنی ساتھی کے طور پر کسی ملازمت پیشہ خاتون (ورکنگ وومین) کا انتخاب کرتے ہیں، تو آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ پھر وہ پورا وقت آپ کے گھر کی نگرانی اوردیکھ بھال نہیں کرسکتی۔ اگر آپ ایک گھریلو خاتون منتخب کرتے ہیں، جو آپ کے گھر، بچّوں، اہل و عیال کے معاملات اچھی طرح نبھائے، تو پھر اُس سے اپنے مالی یا دفتری امور میں تعاون کی کوئی اُمید نہ رکھیں۔
اگر آپ کسی نڈر، دلیر (بولڈ) لڑکی سے متاثر ہو کر اُس کا انتخاب کرتے ہیں، تو پھر ذہنی طور پر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح سُننے اور خُود بھی کہنے کے لیے تیار رہیں۔ اگر آپ کسی خاموش طبع، ڈری سہمی، دَبی دَبی رہنے والی لڑکی کو بیاہ لاتے ہیں، تو پھر یا توعُمر بھر اُس کی چُپ یا پھر کبھی اچانک ہی پَھٹ پڑنے کے لیے بھی خُود کو تیار کر لیں۔ اگر آپ کسی انتہائی خُوب صُورت لڑکی کا انتخاب کرتے ہیں، تو پھر خُوب چائو چونچلے اُٹھانے، کبھی کبھی سخت احساسِ کم تری میں مبتلا ہوجانے اور لوگوں کے طنزیہ، حاسدانہ جملوں یا عامیانہ رویّوں کا مقابلہ کرنےکےلیے بھی فوری مستعد ہوجائیں۔
اگر آپ ایک جذباتی، عدم تحفّظ کی شکار عورت کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کر بیٹھے ہیں، تو پھر یا تو اُسے اپنی چھتنار چھائوں میں سمیٹ کر اُسے مضبوط و مستحکم کرنے، اُس کی حفاظت و پاسبانی کا بیڑہ اُٹھا لیں یا پھر مختلف معاملاتِ زندگی میں کچھ جذباتی فیصلوں کے لیے آمادہ رہیں اور اگر آپ نے اپنی آئندہ زندگی کی لگام ایک بہت مضبوط، خُود مختار عورت کے ہاتھ تھمانے کا تہیّہ کرلیا ہے، تو پھر اپنے تصوّر، سوچ سے لےکر قول و عمل تک، اُس کے بھرپور اثرات و اختیارات کے لیے بھی تیار رہیں۔ اور.....یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا میں کوئی شخص کامل نہیں اور ایک عورت بھی نہیں ہوسکتی، تو آپ کو ہمیشہ اُسے اُس کی مختلف خُوبیوں، خامیوں کے ساتھ ہی قبول کرنا ہوگا۔‘‘
چوں کہ پوسٹ نہ جانے کہاں کہاں سے شیئر ہو کر ہم تک پہنچی، تو نہیں معلوم کہ اصل خالق کون ہے۔ مگر مترجّم ہم ہی ہیں کہ اس ’’اسٹائل‘‘ بزم کے لیے تو ممکن ہے، ہمیں خواتین پر پی ایچ ڈی ہی کرنی پڑجائے۔ کیوں کہ ہمارے لیے تو ہر ہفتے کا ایک ہی کھڑاگ ہے کہ اس بار رائٹ اَپ میں کیا ایسا نیا لکھا جائے کہ جو نہ صرف بزم کی طرف متوجّہ کرے بلکہ کسی حد تک خواتین کی دل جوئی و اشک شوئی بھی ہو جائے، خصوصاً اُن خواتین کی، جن کی زندگیوں میں تفریحِ طبع کے مواقع، بہانے نسبتاً کم ہیں۔
ویسے ہمیں خُود بھی یہ تحریر (پوسٹ) خاصی پسند آئی کہ عموماً مرد، جو خواتین سے ایک دَم پرفیکٹ (کامل) ہونے کی اُمید رکھتے ہیں، اُنہیں تھوڑی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یوں تو آپ خواتین کو صنفِ نازک کہتے اور سمجھتے ہیں، لیکن اُن سے توقعات ایسے باندھی جاتی ہیں، جیسے وہ انسان نہیں، کوئی مشین، رُوبوٹ ہوں۔
بھئی، بات یہ ہے کہ عورت کوعورت کی طرح ٹریٹ کیے بغیر بات بن نہیں سکتی۔ زندگی کی گاڑی کو ایک ہم وار رستے، پھولوں بَھری روش پر دوڑتے دیکھنے کی خواہش ہے، تو عورت کی سب اہم ضروریات، چھوٹی چھوٹی خواہشات کومقدّم رکھنا ہوگا، جن میں سرِفہرست تو اُس کی فطری و ازلی خواہش بننا سنورنا (بنائو سنگھار بلکہ سولہ سنگھار) ہی ہے کہ یوں ہی تو ہم ہر ہفتے لوزماتِ آرائش و زیبائش سے لدے پھندے نہیں چلے آتے۔
تو چلیں، اب آج کی بزم سے آنکھیں چار کیے لیتے ہیں۔ نیلے کے خُوب صُورت سے شیڈ میں ایمبرائڈرڈ پہناوے کے ساتھ سفید اُجلا سا دوپٹا ہے، تو اسکن رنگ پہناوے پر ہم رنگ کڑھت خُوب بہار دکھا رہی ہے۔ پیرٹ گرین سے شیڈ میں سُرخ پلین دوپٹے کے ساتھ دو نسبتاً ملتے جُلتے سے ڈریسزہیں اوردونوں پر خُوب صُورت ملتانی اور بلوچی کڑھت کا جلوہ ہے۔ سفید و سیاہ رنگوں کے سدا بہار کنٹراسٹ میں موتی، سیکوینس ورک اور کٹ ورک کا نفیس امتزاج لیےشان دار مشینی کڑھت کا انداز ہے، تو سُرخ و سیاہ کے حسین کامبی نیشن میں تھریڈ ورک سےمزیّن حسین پہناوے کے تو کیا کہنے۔
گرچہ موسم خاصا گرم ہے، مگر ہمارے پہناووں کے رنگ بہت گہرے، تیز یوں ہیں کہ ابھی ’’عید ملن پارٹیز‘‘ کا سلسلہ چل ہی رہا ہے اور خوشی و مسرّت کا اظہار پھیکے، ڈل رنگوں سے تو نہیں کیا جاتا ناں!! تو بس اِن رنگ و انداز سے سج سنور کے گاتی، اِٹھلاتی پھریں ؎ تفاوت کبھی نت بدلتی امنگوں میں دیکھ..... تفاوت کبھی لہکے سبزے کے رنگوں میں دیکھ..... کہیں تازہ کونپل میں سبزے کی ہلکی جھلک..... کہیں ٹہنی ٹہنی بدلتا ہے پتّوں کا عکس..... کبھی دھوپ میں نکھرا نکھرا ہے، رنگوں کا رُوپ..... کبھی چھائوں میں، شام کے سائے میں ابر میں..... سبھی رنگ کچھ اور بھی گہرے ہوتے ہوئے..... تفاوت سے جن کی تِری آنکھ حیراں رہے۔